• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نویدِ فکر کے تعاقب میں پاکستانی لبرل دانش کا بنجر پن اور ایڈورڈ سعید (1)-محمد عامر حسینی

نویدِ فکر کے تعاقب میں پاکستانی لبرل دانش کا بنجر پن اور ایڈورڈ سعید (1)-محمد عامر حسینی

قوم کی سوچ یا حکمران طبقے کی سوچ؟

julia rana solicitors london

پاکستان میں جب سے سوویت یونین ٹوٹا تب سے جدیدیت اور مابعد جدیدیت نے ہماری جامعات کے سماجی علوم ، سانئسی علوم اور ادبی علوم کے شعبہ جات میں ایک طرف تو دائیں بازو کی سوچ کو غالب رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب ان کے مدمقابل لبرل، نیو لبرل، پوسٹ ماڈرنسٹ ہیں جو اپنے آپ کو دائیں بازو کی رجعت پسندی کا واحد ترقی پسند ، روشن خیال متبادل بناکر پیش کرتے ہیں ۔ جامعات ہوں یا نام نہاد مین سٹریم میڈیا ہو ان میں ایک عرصہ ہوا انقلابی سماج واد نظریات کا چلن ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ سماج میں ہمیں کہیں کوئی ایسا دانشور نظر نہیں آتا جو دائیں بازو کی رجعت پسندی اور نیو لبرل پوسٹ ماڈرنسٹ سوچ کا تاریخ کے مادی جدلیاتی طریقہ کار کی روشنی میں محاکمہ کرتا ہوا ملے ۔
ہمارے سماج میں لبرل اور نیو لبرل دانشوروں نے کارل مارکس کو دفن کرنے کے لیے اور اس کے سماجی انقلابی نظریات کو پچھاڑنے کے لیے جہاں دریدا ، میشل فوکو کے نظریات مستعار لیے وہیں انھوں نے ایڈورڈ سعید کی کتاب “اورئنٹل ازم / استشراقیت” میں کارل مارکس پر کی گئی ایک تنقید کو بہت زیادہ پھیلایا اور ایسا تاثر دیا جیسے اس کا کوئی جواب کسی سماج وادی دانشور کے پاس موجود نہیں ہے۔ خود کو مارکس وادی اور سماج وادی کہلانے والے دانشوروں نے بھی مارکس کے باب میں ایڈورڈ سعید، اقبال احمد کی تنقید کو سرآنکھوں پر بٹھایا اور معذرت خواہانہ رویہ اپنایا۔ ایڈورڈ سعید اور اقبال احمد کے نظریات اور خیالات کی اردو اور انگریزی میں خوب تشہیر کی گئی ۔ ان کی کتابوں کے تراجم بھی سامنے آئے۔ لیکن ان کے خیالات پر جو مارکس وادی تنقید تھی اسے نہ تو جامعات کے “ترقی پسند” حلقوں میں جگہ ملی اور نہ ہی میڈیا پر وہ کبھی اپنی جگہ بنا پائی ۔ جس کسی نے مارکس کے تاریخی مادی جدلیاتی نظریہ پر اصرار کیا تو اسے “مارکسی ملاں” قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔
ایسے میں میرے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا کہ میں مارکس واد اور سماج واد کے نظریات کی معاصر فکری جدلیات میں افادیت برقرار ہونے کے بارے دلیل اور منطق کی راہ اپناؤں ۔
میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں یہ بحث ازسر نو شروع ہو مارکس واد نے نوآبادیاتی سماجوں کے بارے میں جو نظریات پیش کیے ان پر پوسٹ ماڈرنسٹ تنقید کیا واقعی ناقابل شکست ہے؟ کیا مارکس واد واقعی اشتراقیت کے اس نکتہ نظر کے مطابق تھا جسے ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں پیش کیا ؟
سردست ، میرے پاس کمیونسٹ پارٹی آف لبنان کے مارکس وادی دانشور اور سیاسی رہنماء مہدی عامل کی ایک کتاب موجو د جس میں ایڈورڈ سعید کی مارکس بارے تشریح پر مبسوط اور مربوط تنقید موجود ہے۔ میں اس میں شامل تنقیدات کو لیکر آگے چلوں گا ۔ امید کرتا ہوں کہ یہ تنقیدی جائزہ ہمارے سماج کی تنقید کے باب میں جو نیو لبرل پوسٹ ماڈرنسٹ بیانیہ غالب ہے اس کی تحلیل اور تنقید میں انقلابی سماج وادیوں کو مزید بحث کرنے کا موقعہ فراہم کرے گا۔
مہدی عامل کی کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ، اس کا پاکستان کے دانشورانہ حلقوں میں کبھی کوئی تذکرہ سننے کو نہیں ملا ۔
میں نے لبرل لیفٹ (حالانکہ اپنی تحریروں اور موقف کے اعتبار سے ان میں اور سرمایہ داری کے حامی پوسٹ ماڈرنسٹ نیولبرل دانشوروں اور قوم پرست دانشوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب کے سب سرمایہ داری کو ناقابل شکست سمجھتے ہیں اور سماجی انقلاب سے منحرف ہیں ) کے لاہور ، اسلام آباد اور کراچی میں مقیم کئی ایک بڑے دانشوروں جن میں سے کئی ان شہروں کی سرکاری اور غیر سرکاری طبقہ اشرافیہ کے بچوں کی جامعات میں “گرو ٹائپ” حثیت رکھتے ہیں اور اربن چیٹرنگ پیٹی بورژوازی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ان کی خوب شہرت ہے کے اندر نہ تو کبھی مہدی عامل کی ایڈورڈ سعید پر کی گئی تنقید کو زیر بحث آتے دیکھا اور نہ ہی مہدی عامل کی کتاب بارے کو ہلکا سا بھی تذکرہ سنا ۔ مارکس وادی کہلانے والے چند ایک دانشوروں کو میں نے ایڈورڈ سعید کی مارکس پر کی گئی تنقید کے سامنے سرنڈر ہوتے ہوئے دیکھا ۔ اگرچہ انقلابی لیفٹ میں ڈاکثر ریاض احمد ، سرتاج خان ، پارس جان ، آدم پال وغیرہ کو میں نے اس مرعوبیت سے خالی پایا اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے سامنے مغربی مارکس وادیوں کے ہاں جو پوسٹ ماڈرن ازم اور نیو لبرل ازم پر علمی تنقید کا دانشورانہ کام موجود ہے لیکن ان کی طرف سے بھی ایڈورڈ سعید اور اقبال احمد جیسوں کو لیکر کوئی خاص تحریری کام دیکھنے کو نہیں ملا ۔
مہدی عامل کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں ایڈورڈ سعید کے ان جملوں پر پہنچا تو سوچنے پر مجبور ہو گیا:
“جو کچھ مستشرقین نے مشرق میں حاصل کیا… اور جو اُن لوگوں نے اپنایا جو مغرب میں رہتے تھے مگر مستشرق نہیں تھے، وہ سب مشرق کے لیے حکمران اور غالب ثقافت کی نمائندہ سوچ اور اُس کی نظریاتی وضاحت کی ایک چھوٹی تصویر ہے۔”
(ص: 170)
میں نے اس اقتباس کو سب سے پہلے نقل کرنا اس لیے ضروری سمجھا کیونکہ یہ ایڈورڈ سعید کی پوری فکر کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ سعید ہمیں بتاتے ہیں کہ مشرق کی جو تصویر مغربی دنیا میں پیش کی جاتی ہے، وہ مشرق کی اصل نہیں بلکہ مغربی حکمران طبقے کی گھڑی ہوئی ایک تصوراتی تشکیل ہے۔ یعنی “مشرق” جیسا ہمیں بتایا جاتا ہے، وہ دراصل مغربی استشراق کا پیدا کردہ ہے، نہ کہ مشرق کی اپنی پہچان۔
ایڈورڈ سعید نے جس استشراق کی بات کی، میں نے اسے صرف علمی تحقیق نہیں بلکہ مغربی حکمران طبقے کی سوچ کے آلہ کار کے طور پر پایا۔ سعید کے مطابق یہ ثقافت صرف مغربی تہذیب کا عمومی اظہار نہیں بلکہ اُس طبقے کی نمائندہ ہے جو دنیا پر غلبہ رکھتا ہے اور ہر دور میں اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی ثقافت نہ کسی اور سوچ کو برداشت کرتی ہے اور نہ کسی متبادل کی گنجائش دیتی ہے۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ دنیا پر ایک ہی سوچ، ایک ہی فکر مسلط رہے۔
ایڈورڈ سعید نے جس “طبقاتی تاریخی کردار” کی نشان دہی کی، میں نے اسے اپنی سیاسی تاریخ اور فکری پس منظر میں بھی دیکھا۔ مجھے یہ سمجھ آیا کہ جب کوئی غالب فکر خود کو “قوم کی اجتماعی سوچ” کہہ کر پیش کرتی ہے، تو وہ دراصل داخلی تضادات اور طبقاتی کشمکش کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ سوچ ایسے پیش آتی ہے جیسے پوری قوم ایک جیسی سوچ رکھتی ہو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حکمران طبقے کی سوچ ہوتی ہے، جو باقی تمام افکار کو دبا دیتی ہے۔
مہدی عامل کی وضاحتوں نے مجھے باور کرایا کہ ایڈورڈ سعید کی فکر بھی ایک حد تک اسی دائرے میں قید نظر آتی ہے۔ خاص طور پر جب سعید کی سوچ کو مارکس کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے، تو یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ استشراق کی جڑیں صرف علمی تعصبات میں نہیں بلکہ مغرب اور مشرق کے درمیان طاقت کے تعلق میں پیوست ہیں۔
جب میں نے کارل مارکس کے 1853 کے مضمون کا مطالعہ کیا، تو مجھے اس کی تلخ حقیقت پسندانہ سوچ نے چونکا دیا۔ مارکس نے برطانوی استعمار کی بربریت کا اعتراف کیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسی بربریت کے نتیجے میں ایشیا میں سماجی تبدیلی کے بیج بوئے جائیں گے۔ مارکس کے اس تجزیے نے مجھے اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ تاریخی جبر اور انقلابی تبدیلی کا رشتہ کس قدر پیچیدہ ہے۔
ایڈورڈ سعید نے مغرب اور مشرق کے درمیان جو عدم مساوات بیان کی، میں نے اسے صرف فکری یا علمی مسئلہ نہیں پایا بلکہ یہ ایک گہرا مادی اور طبقاتی مسئلہ ہے۔ سعید نے جس دائرے کی تنگی کا ذکر کیا، وہی دائرہ ہمارے پاکستانی لبرل دانشوروں کے گرد بھی لپٹا ہوا ہے، جو اسی استشراقی فکر کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔
جہاں سعید “قومی فکر” کی بات کرتے ہیں، میں نے دیکھا کہ وہاں اصل میں طبقاتی تضاد کو چھپایا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ تصور کہ فرد کبھی حکمران فکر سے باہر نہیں نکل سکتا، اور جو بھی استثنا پیدا ہوتا ہے، وہ بھی اسی غالب نظام کی تصدیق کرتا ہے — یہ دراصل وہی “قاتل منطق” ہے جس کا ذکر مہدی عامل نے کیا۔
عقل: مشابہت کی منطق اور تضاد کی منطق کے درمیان
جب میں نے مہدی عامل کے اس باب پر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ پاکستانی لبرل دانشور بھی “مشابہت کی منطق” کا شکار ہیں۔ وہ ہر مسئلے کو ایک ہی سانچے میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس منطق میں “تضاد” کی کوئی جگہ نہیں۔ اگر کوئی مختلف آواز اٹھتی بھی ہے تو اسے استثنا کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
مجھے مہدی عامل کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اصل علم اور فکر اسی وقت جنم لیتی ہے جب ہم “تضاد کی منطق” کو اپناتے ہیں۔ یعنی جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر سماج، ہر فکر، اور ہر نظریہ اندرونی کشمکش اور طبقاتی جدوجہد کا میدان ہے۔
پاکستانی لبرل دانش کو دیکھ کر مجھے یہی احساس ہوا کہ انہوں نے بھی استشراق کی طرح سوچنے کا طریقہ اپنایا ہے۔ جہاں صرف مغرب کو عقلیت اور ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور مشرق کو جذباتی، پسماندہ اور اصلاح کا محتاج قرار دیا جاتا ہے۔
مہدی عامل نے جس “قاتل منطق” کی بات کی، وہ دراصل وہی فکری جمود ہے جو ہر نئی سوچ کو دبا دیتا ہے اور تبدیلی کی راہیں مسدود کر دیتا ہے۔ اگر ہم اس جمود کو توڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں مادی تضاد کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، اور اپنی فکری جدوجہد کو محض ثقافتی مباحثے تک محدود نہیں رکھنا ہوگا۔(جاری ہے )

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply