میاں بیوی کے رشتے کا ایک طرفہ سفر/حسنین نثار

گھر کے کونے میں بیٹھا ایک شخص، ہاتھ میں موبائل تھامے، کبھی ہنستا ہے، کبھی سکرین پر انگلیاں پھیرتا ہے۔ باہر کی دنیا میں گم، گھر کی دیواروں سے لاپروا۔
بیوی کچن میں جھلستی ہے، بچوں کی فرمائشوں اور ضروریات میں گھری رہتی ہے، لیکن اس شخص کی دنیا کسی اور محور پر گھوم رہی ہے۔ نہ بچوں کے تعلیمی اخراجات کی فکر، نہ بیوی کی ضروریات کا احساس۔
گھر کے کرائے سے لے کر، بجلی کے بل تک، کبھی سسرال کی مدد، کبھی بیوی کی سلائی کڑھائی کی کمائی، کبھی کسی دروازے پر دستک دے کر سوال کیا جاتا ہے کہ “چلیں مہینے کا گزارا ہو جائے۔”

بیوی، جس نے خواب دیکھے تھے کہ شادی کے بعد ایک ہمسفر ہوگا جو اس کا سہارا بنے گا، آج خود کو تنہا محسوس کرتی ہے۔ وہ ہر دن امید باندھتی ہے کہ شاید آج کوئی تبدیلی آئے، شاید آج وہ شخص خود سے پوچھے کہ “کچھ چاہیے تو نہیں؟”،
مگر وقت ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتا جاتا ہے۔

شوہر کا لاپروا رویہ صرف خرچے تک محدود نہیں۔ وہ دل کا، جذبوں کا بھی مقروض ہے۔ بیوی کے جذبات کا کوئی مول نہیں، اس کی خوشیوں کا کوئی شمار نہیں۔
نہ کبھی کسی خوشی پر ساتھ دیا، نہ کبھی کسی دکھ پر کندھا دیا۔
وہ ہنستی ہے تو اکیلے، روتی ہے تو چپکے سے۔ کیونکہ جانتی ہے، کوئی سننے والا نہیں۔
وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی۔ شرم، سماج کا خوف، بچوں کی مجبوری — سب اسے خاموشی اوڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ایسے شوہروں کو چھوڑ دینا چاہیے۔
مگر کوئی ان عورتوں سے پوچھے کہ چھوڑ کر کہاں جائیں؟
ماں باپ کے دروازے ہمیشہ کھلے نہیں رہتے۔
معاشرے کی نظریں تلخ اور زہریلی ہوتی ہیں۔
بچوں کو ساتھ لے کر ایک نئی جنگ لڑنا، ایک عام عورت کے لیے آسان نہیں۔

بہت سی عورتیں طلاق لینے کا سوچتی ہیں، مگر صرف سوچتی ہیں۔
کچھ تو اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہیں۔
کچھ بستر پر بیمار ہو جاتی ہیں۔
کچھ وقت سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔
اور کچھ… ایک دن چپ چاپ دنیا سے چلی جاتی ہیں، جیسے کبھی تھیں ہی نہیں۔

کیا یہ انصاف ہے؟
کیا عورت کا جرم یہ تھا کہ اس نے محبت، عزت اور ساتھ کی امید کی تھی؟

ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خاموش رہ کر ساری زندگی قربانی دینا کسی کا فرض نہیں۔
زندگی اللہ کی امانت ہے، اسے یوں بے بسی میں گزار دینا ظلم ہے، خود پر بھی اور اپنے بچوں پر بھی۔

عورت کو اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا۔
اسے سمجھنا ہوگا کہ وہ کمزور نہیں ہے۔
اگر شوہر فرائض ادا نہیں کر رہا، نہ مالی مدد دے رہا ہے، نہ جذباتی سہارا،
تو عورت کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔

کچھ چھوٹے چھوٹے ہنر سیکھے جا سکتے ہیں۔
آن لائن کام، سلائی، دستکاری، کھانے پکانے کا چھوٹا کاروبار — کچھ بھی،
مگر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر انتظار کرنے کی بجائے، خود کو مضبوط کرنا لازم ہے۔

دوسری بات یہ کہ عورت کو اپنی عزتِ نفس کو مقدم رکھنا چاہیے۔
اگر حالات ناقابلِ برداشت ہو چکے ہوں،
اگر ظلم حد سے بڑھ گیا ہو،
تو جدائی کا فیصلہ کرنا کوئی گناہ نہیں۔
اسلام نے بھی ظلم سہنے کو فرض نہیں کیا۔
طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ضرور ہے، مگر بعض اوقات یہ زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔

تیسری بات یہ کہ عورت کو اکیلا محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
اپنے خاندان، اپنے دوستوں سے بات کرے۔
کسی اچھی مشیر یا ماہرِ نفسیات سے رجوع کرے۔
دلی بوجھ کو بانٹنے سے حل نکل سکتا ہے۔

سب سے آخر میں، اور سب سے اہم:
اپنے رب سے تعلق مضبوط کرے۔
اللہ سے دعا مانگے، صبر کرے، مگر ظالم کے ظلم پر خاموش رہ کر خود کو برباد نہ کرے۔
صبر کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے آپ کو مٹا دیا جائے۔
صبر کا مطلب ہے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے صحیح اور جائز قدم اٹھانا۔

زندگی صرف قربانیوں کا دوسرا نام نہیں۔
زندگی اپنے آپ کو پہچاننے، سنوارنے، جینے کا حق ہے۔
جو عورت خود کو پہچان لیتی ہے، وہ پھر کسی کا سہارا ڈھونڈنے کی محتاج نہیں رہتی۔

julia rana solicitors london

ایسی عورتوں کے لیے دعا ہے کہ اللہ انہیں ہمت دے،
بہتر راستے دکھائے،
اور ان کے آنسو ضائع نہ ہونے دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply