سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟-حسین خالد مرزا

سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ۱۹ ستمبر، ۱۹۶۰ کو کراچی میں طے پایا، جس میں عالمی بینک نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
معاہدے کی ضرورت کیوں تھی؟
۱۹۴۷ کے بعد زمین کا وہ حصہ زیادہ تر بھارت کے حصے میں آیا، جہاں سے دریا نکلتے ہیں۔ جبکہ ان دریاوں پر انحصار کرنے والے زرعی علاقے پاکستان کے حصے میں آئے۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگیوں کو قابو کرنے کے لیئےایک واضح معاہدے کی اشد ضرورت تھی، جو کہ سندھ طاس معاہدے کی صورت میں کیا گیا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس کے چھ دریاؤں کو پاکستان اور بھارت کے درمیان درج ذیل طریقے سے تقسیم کیا گیا:
مشرقی دریا راوی، ستلج اور بیاس کا مکمل استمعال بھارت کو دیا گیا۔
مغربی دریا سندھ، جہلم، چناب کا مکمل استمعال بھارت کو دیا گیا۔
مشرقی دریاؤں پر بھارت کو مکمل اختیار دیا گیا، جس سے وہ زراعت، گھریلو ضروریات اور غیرخرچ استمعال کر سکتا ہے، جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کو ترجیحی حقوق دیئے گئے، تاہم بھارت کو بھی چند محدود سرگرمیوں کے لیئے جیسے کہ آبی بجلی پیدا کرنے کی اجازت حاصل رہی، بشرطیکہ وہ دریا کے قدرتی بہاؤ میں کسی نمایاں تبدیلی کا باعث نہ بنے۔
معاہدے کی اہم ضروریات
۱: دریاؤں کی تقسیم
معاہدے کے تحت، مشرقی دریاؤں پر بھارت اور مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل کنڑول تسلیم کر لیا گیا، تاکہ پانی کے حقوق میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔
۲: عبوری مدت
معاہدے نے ایک عبوری مدت مقرر کی جو تقریباً ۱۳ سال پر محیط تھی۔ اس دوران پاکستان نے بڑے پیمانے پرنہری نظام، ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کیئے تاکہ مشرقی دریاؤں سے ملنے والے پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم اسی پروگرام کا حصہ تھے۔
۳: مستقل انڈس کمیشن
معاہدے کے تحت مستقل انڈس کمیشن قائم کیا گیا جس میں دونوں ممالک کے نمائندے شامل ہیں۔ یہ کمیشن پاکستان کے اعداد و شمارکاتبادلہ کرتا ہے، معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کرتا ہے اور کسی بھی مسئلے کے حل کے لیئے پہلا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔
۴: تنازعے کا حل
اگر دونوں ممالک کے درمیان کؤئی تنازعہ پیدا ہو تو
پہلے مرحلے میں انڈس کمیشن کے ذریعے گفت و شنید کی جاتی ہے۔
اگر مسئلہ حل نہ ہو تو نیوٹرل ایکسپرٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔
سنگین معاملات کو بین الاقوامی عدالت میں لے جایا جا سکتا ہے۔
۵: آبی بجلی پیداوار
بھارت کو مغربی دریاؤں پر محدود پیمانے پر آبی بجلی منصوبے بنانے کی اجازت ہے۔ لیکن ان منصوبوں سے پاکستان میں پانی کی فراہمی متاثر نہ ہو۔
سندھ طاس معاہدے کی اہمیت
سندھ طاس معاہدہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور تاریخی معاہدہ ہے۔ یہ نہ صر ف خطے میں تنازعات بڑھنے سے روکتا ہے بلکہ لاکھوں زندگیوں کو متاثر ہونے سے بچاتا ہے۔
موجودہ چیلنجز
سندھ طاس معاہدہ کو حالیہ دنوں میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بھارت نے معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ زرعی پانی کے لیئے پاکستان کا انحصار اس معاہدے پر ہے۔ یہ معطلی پاکستان کی معشیت اور زرعی پیداوار پر سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
بھارت کے الزامات بغیر کسی ثبوت کے ہیں، جس سے حالات مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ اگر معاہدہ معطل ہوتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے، جو کہ عالمی دنیا کے لیئے بھی خطرہ ہے۔ ان قوانین کو حل کرنے کے لیئے فوری طور پر قانونی اور سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
نتیجہ
سندھ طاس معاہدہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان تعاون کی ایک شاندارمثال ہے۔ جو جنگوں اور سیاسی اختلافات کے باوجود چھ دہایوں سےلاکھوں زندگیوں کو محفوط بنا رہا ہے۔ اس معاہدے کو ترک کرنے کرنے کے بجائے دونوں ممالک کو اس اعتماد کی بحالی کی بنیاد بنانا چاہیئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply