سقراط سے قبل انسان شاید کائنات کا مرکز تصور نہ ہوتا تھا، Thales of Miletus کے اٹھائے بھاری بھرکم سوال کے سامنے قدیم یونانی حکمت ڈھیر ہوگئی، وہ آخری علماء میں سے تھے جو وجودی حقیقت کے کُل پر مرکوز تھے ، ان کے بعد کُلی وجود کی بجائے انسان اور انسان کے بنائے اداروں پہ توجہ مرکوز ہو رہی، سقراط بڑی حد تک ایک جنونی آدمی تھے، نوجوانوں کو گھیر گھار کر ایسے سوالات داغتے جن کا کوئی بھی جواب تضاد کو جنم دیتا، عقلی مشت زنی کا انہیں شوق تھا، طلباء کے قدم اکھڑتے دیکھ کر باقاعدہ محظوظ ہوتے۔ انہی کے شاگردوں نے آگے جا کر کلبی فلسفے کی داغ بیل ڈالی جس میں اندرونی جبلتوں کے مطابق ہی زندگی گزارنے پر زور دیا گیا اور اندرونی جبلتوں کی پیروی کیلئے کُتے کا انتخاب کیا گیا کہ جبلتوں کا اس سے بہتر اظہار ممکن نہیں، کلبی گروہ نے مذہب، ثقافت، سماج و اخلاقیات کا مکمل انکار کیا کہ شیر بھی کبھی منہ دھوتا ہے بھلا؟ ان کے مطابق تمام قدیم روایات انسان کو زندگی جینے میں رکاوٹ ہیں، اسی لئے کلبی فلسفہ ہی کامل حق ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی فلسفہ یا تہذیب سرے سے بے معنی ہیں ، ویسے بھی صرف جرآت مند فرد ہی مروج سماجی روایات کو توڑ کر اپنی مرضی سے آزاد زندگی گزارنے کا حوصلہ رکھتا ہے، یہ کام بزدلوں کا نہیں۔
بہادری کا ذکر ہوا تو رواقیت کے علمبرداروں نے آگے بڑھ کر کلبی گروہ سے جھنڈا چھین لیا کہ اصل بہادر تو وہ ہے جو روایات کا امین ہو، جسے ذمہ داری کا احساس ہو، جو اپنی زبان پہ پورا اترے اور زندگی کی مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا، ذمہ داری کے اس احساس کے باوجود رواقی گروہ کے پاس وجودی سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ بھی کاملیت کی بجائے جزو پہ متوجہ رہے، جاری رسومات کو کامل حق جانا، اسی لئے غلامی کو درست جانتے ہوئے اسے جاری رکھا، یعنی کلبی گروہ کی طرح اس رواقی گروہ نے اب اپنے فلسفے کا کامل حق جانا کہ یہی جزو ہی اصل کاملیت ہے۔
وجودی سوالوں کے جواب ڈھونڈھنے کی مشق کو چھ صدی قبلِ مسیح میں فلسفے کا نام دیا گیا، جس کا لغوی معنی علم و دانش سے محبت ہے، اکثریت کی رائے میں اس اصطلاح کے بانی فیثاغورث ہیں، اس اصطلاح کے لغوی معنی انسان کو اس کے اصل مقصد سے غافل کر دیتے ہیں، فلسفہ بنیادی طور پر کامل حقیقت کو جاننے کی کوشش کا نام ہے، ایسے ہی جیسے یونیورسٹی کا نام یونیورس سے ہے یعنی کم از کم اس کائنات کے علوم جاننے کی جگہ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں لیکن آج فیشن یا آرکیٹیکچر کی بھی یونیورسٹیز موجود ہیں، یعنی کائناتی علم پانے کا مقام محدود ہوکر انتہا تک سکڑ چکا ہے ، یہی حادثہ فلسفے کے ساتھ ہوا، فلسفۂ صحت، فلسفۂ مطالعہ، فلسفۂ سیاست جیسی اصطلاحات نے فلسفے کے دریا کو تنگ نالے میں بدل دیا ہے۔
اب فلسفی وہ نہیں جو کامل حقیقت کو پانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ فلسفی آج زندگی کے صرف کسی ایک آدھ شعبے میں ہی عرق ریزی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ محبت کا فلسفہ، جنگ کا فلسفہ جیسے مضامین قبلِ مسیح سے ہی فلسفے کی حقیقت کا منہ چڑانا شروع ہو گئے تھے، شراب بنانے کا بھی باقاعدہ فلسفہ موجود ہے، حیرانی ہے کہ ایسے افراد کو فلسفی کا لقب کیونکر دیا جاتا رہا، یہ تو گویا یوں کہ چاہت فتح علی خان کو موسیقی کا ماہر مان لیا جائے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ Thales of Miletus جیسے سوال اب کوئی نہیں اٹھا رہا، سوالات سطحی ہیں تو جواب بھی سطحی آ رہے ہیں اہسے میں ہر گزرتی صدی کے ساتھ کند ذہنیت کا پروان چڑھنا قطعاً حیرانی کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔فلسفی کا کام آج فقط قدیم فلسفیوں پر بحث کرنا ہے، طلباء کو دقیق اصطلاحات سمجھانا ہے یا پھر سماجی نظام کی بربادیوں پر کڑھنا باقی رہ گیا ہے۔
” حقیقی فلسفی کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر آف فلاسفی نہیں ہوتا ” (فیؤرباخ )۔
چوتھی صدی قبلِ مسیح میں ارسطو تمام میسر معلومات جمع کرتے ہیں اور اسے منظم کر کے لامحدودیت سے چھیڑ خانی کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ لامحدودیت کا جاننا آسان نہیں لیکن اس کا انکار بھی ممکن نہیں، لامحدودیت کے خوف کو لے کر وہ اسے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، حقیقی اور ممکنہ ، دوسرے الفاظ میں بالفعل اور بالقوہ بھی کہا جا سکتا ہے، بالفعل یا حقیقی کو وہ ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں کہ ان کے بنائے علمی ڈیزائن درہم برہم ہو سکتے ہیں، البتہ ممکنہ یا بالقوہ لامحدودیت وہ اسے قرار دیتے ہیں جو مسلسل پھیل رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور یہ انسان کی سمجھ میں آ سکتی ہے، لیکن یہاں اہم سوال پوچھنے والا یہ تھا کہ جو وجود مسلسل پھیل رہا ہے وہ لامحدود کیسے ہو گیا، پھیلے گا تو وہی جو پہلے سے اپنی حدود رکھتا ہے ، اس مغالطے کی بدولت بعد میں آنے والوں نے علتِ وجود کو ہی وجود قرار دیا جو مغالطہ در مغالطہ تھا، مگر ایک طرف جہاں ارسطو کا علمی حجم بھاری تھا اور دوسری طرف وہ سکندر مقدونی کے استاد بھی تھے تو کسی نے سوال اٹھانے کی جرآت نہ کی، اس کے بعد سے فلسفہ کے میدان میں تنزلی کا سفر شروع ہوا، رینے ڈیکارٹ البتہ وہ آدمی تھے جنہوں نے اس تنزلی کے سامنے بند باندھنے کی ایک بڑی کوشش کی جو قابلِ تعریف ہے، بیسویں صدی میں وجودیت پر ہائیڈیگر کے مضامین بھی نہایت شاندار ہیں ۔
حیران کن اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ارسطو کی لامحدودیت کی یہ دوئی مذاہب میں بھی نظر آتی ہے، جیسے کہ تمام مذاہب کی مقدس کتب بتاتی ہیں کہ خدا کی ہستی بیکراں ہے، لامحدود ہے، اسے پانا ممکن نہیں یہ گویا کہ حقیقی یا بالفعل لامحدودیت کا دعویٰ ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی لکھا ہے کہ وہی خدا تمہارے درمیان آگ کی طرح موجود تھا (تورات) اور وہی خدا تمہارے ہاتھ بن جاتا ہے (قرآن)، یہاں اب ممکنہ یا بالقوہ لامحدودیت کی بات ہو رہی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ وہ چیز جسے ہم عقیدہ کہتے ہیں اپنی ساخت میں یہی بالقوہ لامحدودیت کا اظہار ہے، اس کی حدود ہیں اور ان حدود سے باہر جانا مذہبی ذہن کیلئے ممکن نہیں، ارسطو نے جو ممکنہ یا بالقوہ لامحدودیت کا آلہ ہمارے ذہن کو تھمایا ہم اسی کی مدد سے وجودی حقیقت کو ڈھونڈھنے میں لگے ہیں اور اس کا حل ممکن نہیں ہے کہ ہاتھی کو فرج میں بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
سائنس کے آنے سے فریج کا حجم مذید کم ہو رہا، عقل دانی اب بالقوہ لامحدودیت تک بھی رسائی نہیں پا رہی چہ جائیکہ حقیقی لامحدودیت کو پانے کی کوشش کی جائے۔
یہ بھی تو ممکن ہے کہ کامل وجودیت کو سمجھنے کیلئے عقلیت پسندی، سائنس اور مذہب کے ساتھ ساتھ اگر اساطیر کے عنصر کو بھی شامل کر لیا جائے کہ فلسفے کی تصویر کچھ مکمل ہو، کوئی نئے سوال سامنے آئیں، آنکھ کھل جائے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج ہم شطرنج کی بازی کے ایک طرف کھڑے اپنے گھوڑے کو اپنے ہی شاہ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں کہ مخالف سمت کے مہرے نظروں سے اوجھل ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں