1857 کی جنگ آزادی ہندو اور مسلمانوں نے مل کر لڑی تھی۔ دہلی، لکھنؤ، کانپور اور جھانسی جیسے مقامات پر دونوں اقوام نے یکجہتی سے انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی۔ (حوالہ: The Indian Mutiny از Christopher Hibbert)۔ لیکن انگریز کے قبضے کے بعد انگریز کے زرخریدوں نے ایسی آگ لگائی کہ مسلمان کو لگا اس کا دشمن ہندو ہے اور ہندو کو لگنے لگا کہ مسلمان اس کا دشمن ہے۔
یوں ہر طبقہ انگریز کے خلاف متحد ہونے کے بجائے آپس میں دست و گریبان ہو گیا۔
ادب اور تاریخ کو بھی اس تفریق کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آنند ماٹھ جیسے ناولوں (مصنف: بنکم چندر چٹرجی، 1882) نے تاریخ کو مسخ کرنے میں خوب حصہ لیا۔ اس میں ہندوؤں کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا گیا۔ (حوالہ: Anandamath, Bankim Chandra)۔
جبکہ مسلمانوں میں بھی، جانے انجانے میں، احمد شاہ ابدالی، محمود غزنوی اور مغلوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ جیسے کہ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی، اور ابوالفضل کی تحریریں۔ اس کے علاوہ محمد قاسم فرشتہ کی تاریخ فرشتہ میں محمود غزنوی کی ہندوستان پر حملوں کو اسلامی فتوحات اور مذہبی جہاد کے طور پر بیان کیا گیا۔
یوں مناظرانہ بیانیہ پروان چڑھنے لگا۔ کہیں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا تو کہیں فرقہ واریت کو ہوا ملی۔
اسی دور میں زبانوں کو بھی مذہب سے جوڑا جانے لگا۔ اردو کو مسلمان قوم کی زبان، جبکہ ہندی، سنسکرت اور بنگالی کو ہندو قوم کی زبان قرار دیا گیا۔ (حوالہ: Language and Politics in Pakistan از طارق رحمان)۔ انگریز نے دفتری زبان بھی انگریزی لاگو کر دی (میکالے کی تعلیمی پالیسی 1835 کے تحت)، اور یوں اس تمام جھگڑے میں ترقی کا ایک ہی راستہ بتایا جانے لگا: کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو انگریزی سیکھو۔
انگریزی سیکھنا بتدریج اسٹیٹس سمبل بنتا گیا۔
انگریز تو آگ لگا کر خود تماشا دیکھتا رہا کیونکہ اس کا فارمولا ہی یہی تھا “Divide and Rule”۔ اور یوں اس آگ نے پورے ہندوستان کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔
ان فسادات میں انگریز کا رویہ بھی یہی تھا کہ جان بوجھ کر ایسے اقدامات کرنا کہ کبھی لگے مسلمانوں کا فائدہ ہو رہا ہے اور کبھی ہندو کا۔
یوں کبھی ایک گروہ انگریز کے ساتھ ہو جاتا تو کبھی دوسرا۔
انگریز نے ہندوستان کی دولت لوٹی، لیکن ریل اور نہروں جیسے منصوبوں کی شکل میں احسان جتایا۔ (حوالہ: The Economic History of India از Romesh Chunder Dutt)۔
فوج میں ہندوستانیوں کو بھرتی کر کے انہی کے ذریعے اپنی حکومت کا تحفظ بھی کیا۔
بقول ڈاکٹر اشتیاق احمد (The Punjab: Bloodied, Partitioned and Cleansed کے مصنف)، انگریز کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اگر دوسری جنگ عظیم میں اس کی کمر نہ ٹوٹتی۔ اسی لیے تقسیم ہندوستان میں بھی ایسے جھول چھوڑ گیا کہ ہم آج بھی مذہبی بنیادوں پر آپس میں دست و گریبان ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تقسیم کا اعلان تو کر دیا گیا، لیکن حد بندی کا نقشہ آزادی کے دو دن بعد 17 اگست 1947 کو جاری کیا گیا۔ (حوالہ: Freedom at Midnight از Dominique Lapierre and Larry Collins)۔
اس کشمکش میں کہ آیا کہ ان کا علاقہ پاکستان میں آئے گا یا بھارت میں، لوگ بروقت نقل مکانی نہ کر سکے اور فسادات کا شکار ہو گئے۔ دس لاکھ لوگ اس تمام کشت و خون کے بازار میں لقمہ اجل بن گئے اور کل کے دوست آج کے دشمن بن گئے۔
یہ آگ وقت کے ساتھ بجھ تو گئی لیکن اس کی چنگاریاں آج بھی سلگتی رہتی ہیں۔
انگریزوں نے اپنے اقتدار کی خاطر 1881 کی مردم شماری کے ذریعے بھی ہندو اور مسلمانوں کی آبادی کے فرق کو واضح کر کے تفریق کو مزید ادارہ جاتی شکل دی۔ (حوالہ: Census of India, 1881, General Report by W.C. Plowden)۔
اگر ملکوں کی سطح پر دیکھا جائے یا اندرونِ خانہ، دونوں صورتوں میں یہ فارمولا — “تقسیم کرو اور حکومت کرو” — نالائقی اور نااہلی چھپانے کے لیے ہمیشہ کارگر رہا ہے۔
جہاں بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، وہیں پاکستان میں بھی مذہبی اور سیاسی تفریق عام ہے۔ انگریز تو چلا گیا لیکن اپنا فارمولہ یہیں چھوڑ گیا۔
تب بھی کوئی انگریز کا ایجنٹ کہلاتا تھا تو کوئی مسلمانوں کا غدار۔ آج الفاظ بدل گئے لیکن فارمولا وہی ہے۔ تب بھی سرمایہ دار اور جاگیردار بلا تفریقِ مذہب انگریز کے وفادار تھے، آج بھی وہی طبقہ اقتدار میں ہے — بس سیاسی پارٹیوں کے نام بدلتے رہتے ہیں۔
ان کی حکومتیں اور پارٹیاں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن غریب کی حالت نہیں بدلتی۔
بحیثیت قوم ہمیں کسی مسیحا کی نہیں، اتحاد کی ضرورت ہے۔
انگریز کے چھوڑے ہوئے فارمولے کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
میری رائے میں تاریخ کا یہی سبق ہے، باقی آپ اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں