آئینہ تو ہمیشہ سے سفاک ہی ہے۔ چاہے ہمارے اندرون خانہ کا آئینہ ہو، دیوار پر لگاہو،حمام کی دیوار پر چمکتا ہو ،آرائش کے لئے کسی دیوار پے آویزاں ہو،کھڑکی میں جڑا ہو،کوئی چہرہ مانند آئینہ دکھتا ہو یا دل آئینہ کی طرح شفاف ہو، آئینہ تو بس آئینہ ہی ہے۔
سات سمندر پار کی رہنے والی جو کبھی کراچی کی باسی ہوا کرتی تھیں۔ وہ مشی گن کی ریاست سے بمع “ سفاک آئینہ”شہر میں موجود ہیں۔
بوٹے سے قد پر بڑا سا چشمہ ،چہرے پر فلسفیانہ مسکراہٹ کے ساتھ ساڑھی کا پلو سنبھالتی وہ خود کو بڑا بڑا ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں،کئی بار دل چاہتا ہے ان کا بازو پکڑکے کہوں “ گوہر تاج!اگر میں تمہارے سیدھی مانگ والے ہلتے بالوں کی دو چوٹیاں باندھ کے تمہیں شلوار قمیض پہنا کے آئینے کے سامنے کھڑا دوں تو آئینہ ساری سفاکی بھول کے مسکرانے لگے گا”۔ لیکن
میری گوہر سے ایسی بے تکلفی نہیں ہے۔ ہماری پہچان اور جان کے درمیان چند ہی سال کا وقت گزرا ہے۔
یہ ساری باتیں تو بر سبیل تذکرہ ہوگئیں اصل میں تو مجھے ان کی کتاب “ آئینہ سفاک ہے “کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔
گزشتہ ہفتے عفت نوید کی کتاب کی تقریب میں انھوں نے مجھے اپنی تحریر کردہ دو کتب عنایت کی تھیں۔
اسی رات میں نے آئینہ سفاک کے ابتدائی اوراق الٹے ،پلٹے تو کچھ فرنگی نام نظر آۓ۔ مجھے ترجمے اور فرنگیوں کی کہانیوں سے کبھی رغبت نہیں رہی۔ اس مسئلے پر کوئی بحث کرے تو میں ایک ہی بات کہتی ہوں “ او بھائی اپنی معاشرت میں ہی اتنے قصے اور کہانیاں ہیں کہ زندگی بیت جاۓ پر ان کا اختتام نہ ہو”۔ یہ میری ننھی سی راۓ ہے جس سے دوسروں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
کل دوپہر کسی وجہ سے بہت زیادہ بوریت کا شاہکار بنی بیٹھی تھی کہ دن کے اختتام پذیر ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے۔ صوفے پر بہت سارے کاغذ اور کتابیں پھیلی ہوئی تھیں کچھ سوچتے ہوئے میں نے “ سفاک آئینے “ کو کھینچا اور اختتامی کہانی کو پڑھنا شروع کردیا۔ کہانی کب ختم ہوئی مجھے پتہ نہ چلا البتہ شام کی چاۓ تک میں کافی سے زیادہ کہانیاں پڑھ چکی تھی۔ آج صبح کے پہلے حصے تک میں نے کتاب کو ختم کر لیا۔
گوہر تاج کی دوسو اٹھاون صفحات پر مشتمل اس کتاب میں زیادہ تر کہانیاں ان کے کیس ورک سے متعلق ہیں گو کہ انھوں نے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوۓ کرداروں کے نام اور مقامات بدل دئیے ہیں۔ اپنے تمام کیس ورک کو کہانیوں میں اپنے کلائنٹ یا متاثرہ افراد کی اجازت سے ڈھالاہے۔
میں ! کتاب پڑھنے کے موڈ میں نہیں تھی پھر میں نے اسے نہ صرف پڑھا، پڑھ کے سو چا کہ کہانیاں تو یہ دور دیس کے اس معاشرے اور افراد کی ہیں جن کے بارے میں ہم منہ بھر کے بے دھڑک یہ کہہ دیتے ہیں “ٹوٹتا ہوا بے راہ معاشرہ ہے۔ ان کی کوئی اقدار نہیں اور سو باتوں کی ایک بات کہ مذہب سے دوری نے انھیں اس مقام تک پہنچایا ہے کہ رشتوں کی تقدیس اوراحترام ختم ہوگیا ہے”۔ لوگوں کی اس راۓ کے بارے میں میری کوئی راۓ نہیں کہ میں آزادی اظہار پہ یقین رکھتی ہوں۔
اس کتاب کے موضوعات مجھے اس لئے اپنے،اپنے سے لگے اور لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ آج ہمارا معاشرہ بھی اندر ہی اندر اسی راہ پہ گامزن ہے۔ باپ بھائی بہنوں ،بیٹیوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں،استاد ڈاکٹر شاگردوں اور مریضوں کو لقمہ تر بنارہے ہیں۔ لڑکے، لڑکوں اور لڑکیاں، لڑکیوں کے سنگ بہے رہی ہیں۔ نوکریوں کے بہانے،شادیوں کے جھانسے جنسی استحصال کاسبب بنے ہوۓ ہیں۔ جنسی درندگی اور استحصال کا یہ کاروبار کچے کے علاقوں میں بھی اسی شان شوکت سے چل رہا ہے جیسا شہروں میں، کچے کے علاقوں میں تو لڑکیوں،بچیوں اور عورتوں کی معمولی سی چوں چراں ان کی زندگی کے خاتمے کاسبب بھی بن جاتی ہے۔
میں یہاں پے نہ تو تمام کہانیوں پر تبصرہ کرسکتی ہوں، نہ ہی ان محرکات کا جنھوں نےمختلف کہانیوں کے کرداروں کو جنم دیا۔
“ جورڈن اپنے گھر سے کیوں بھاگی”
یہ ایک ایسے گھر کی کہانی ہے۔ جہاں تقریباً ہرسال ایک نئی زندگی کا اضافہ کیا جاتا تھالیکن گھر کا ماحول جانوروں کے باڑے سے بھی بدتر تھا۔ غلاظت کے ڈھیر، غیر صحت مند ماحول، ناکافی سے بھی کم خوراک،سگے ماں باپ کا سگے بچوں پر ظلم ،نہ تعلیم نہ صحت”۔ ایک ایسے گھر سے ایک بچی بھاگی اور پولیس کے ہتھے چڑھ گئی تو اس گھر کی کہانی دیواروں سے باہر نکلی اور بچے مختلف اداروں میںrehabilitation اور کونسلنگ کے لئے گۓ۔ اس کہانی میں ٹیپ کابند یہ ہے کہ بچوں کی ماں کا اپنا بچپن جنسی خریدوفروخت میں گزرا تھا اس کی اپنی ماں کی وجہ سے۔
“ جب میں ایک ہم جنس پرست مرد کی بیوی بنی”۔ بچیوں کو امریکہ یاکسی بھی ایسے ملک میں بھیجنے کے خواہش مند والدین کے لئے ایک سبق آموز کہانی”۔
“ امریکی فوج میں خواتین فوجیوں کا استحصال”” جنگ نے آخر کام تمام کیا”” سفید برف سرخ کوٹ اور میرا باپ “جینی کی کہانی”مجھے اپنی ماں سے نفرت ہے””جوزف یہیں پہ ہے”۔
میں نے اوپری لائنوں میں لکھا ہے کہ ہر کہانی اور اس کے کرداروں کے بارے میں لکھنا ممکن نہیں۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں یا لکھ سکتی ہوں کہ یہ ساری کہانیاں گوہر کی زندگی میں آنے والے ان کرداروں کی سچی کہانیاں ہیں جن سے وہ دوران ملازمت متاثر ہوئیں۔
نشہ خواہ افیم کاہو یا کوکین کا،ہیروئن ہویا آئس،شراب ہو یا چرس اس کے اثرات برے ہی ہوتے ہیں۔ ان کہانیوں کے کردار نشے کی بدترین صورت حال میں جنسی استحصال ،جنسی تشدد اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہوۓ ہیں۔ اور کچھ یوں ہوۓ ہیں کہ نہ صرف اپنی زندگیاں برباد کی ہیں اپنی زندگیوں میں آنے والے ہر کردار کو برباد کیا ہے۔
کچھ سمجھنے ،سیکھنے اور جاننے کے لئے ضروری ہے کہ “ آئینے کی سفاکی” کا مطالعہ کیا جاۓ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں