جاوید منزل میں بیادِ اقبال سیمینار/آغر ندیم سحر

جاوید منزل جانے کا تجربہ ہمیشہ منفرد ہوتا ہے،یہاں کے درودیوار اور راہداریوںسے مجھے علامہ کی خوشبو آتی ہے،وہ ہستی جس نے اپنے افکارِ عالیہ سے ایک عالم کو روشن اور معطر کیا۔گڑھی شاہو میں موجود یہ عمارت جہاں علامہ نے اپنی زندگی کے آخری تین برس گزارے،اب محکمہ آثار قدیمہ اختیار میں ہے۔اس ادارے کے ڈائریکیٹر اقبال خان منج اور کیوریٹر حامد نذیر،جاوید منزل کی تعمیر ِنواور تزئین و آرائش کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔۱۹۷۷ء میں جب علامہ کا صد سالہ جشن منایا جا رہا تھا،حکومت نے اقبال منزل سیالکوٹ،علامہ کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور جاوید منزل کو حکومتی تحویل میں لینے کا منصوبہ بنایا،اس کے بعد ان تینوں عمارتوں کو اقبال میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے یہاں منتقل ہوئے تھے اوراپنی وفات تک یہی مقیم رہے،دنیا کے درجنوں اہم شخصیات علامہ سے ملاقات کے لیے اسی گھر میں تشریف لائیں.علامہ نے اس عمارت کا نام،اپنے لخت جگر ڈاکٹر جاوید اقبال کے نام پہ رکھا تھا.جاوید اقبال نے بھی علامہ کے نظریات سے نہ صرف بھرپور استفادہ کیا بلکہ اسے دنیائے عالم تک پہچانے میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

اس میوزیم میں علامہ کی کئی اشیا موجود ہیں جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال نے میوزیم کو عطیہ کی تھیں۔ان اشیاء میں علامہ کا پاسپورٹ،دستخط کی مہر،ملاقاتی کارڈوں والا بٹوا،بنک کی کاپیاں، عینکیں، انگوٹھیاں، کف لنکس، پگڑی، قمیض، جوتے، ٹوپیاں، تولیے، کالر، دستانے، وکالتی کوٹ،جناح کیپ، گرم سوٹ جو لندن ریجنٹ سٹریٹ سے سلوائے تھے،پشمینہ،شیروانی،حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجہ سرکرشن پرشادکی جانب سے ارسال کردہ قالین، قلم، مسودے، خطوط،دستاویزات،تصاویراور متعدد دیگر اشیاء شامل ہیں۔اس میوزیم کی تعمیر کے لیے جاپان حکومت نے اقبال میوزیم کے لیے جاپان کے ثقافتی فنڈز سے شوکیسوں اور ایئرکنڈیشنز کے علاوہ متعلقہ سامان اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے امداد بھی فراہم کی تھی۔

علامہ کے یومِ وصال پر جاوید منزل میں ہونے والا بیاد اقبال سیمینار کئی حوالوں سے اہم تھا،پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ زبان و ادبیاتِ اردو اور محکمہ آثار قدیمہ کے اشتراک سے منعقد ہونے والے سیمینار میں ماہرین اقبالیات کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کے طالب علموں کی ایک کثیر تعداد بھی تشریف فرما تھی،یہ تقریب اس لیے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی کہ اس میں ایسے نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو اقبالیات پڑھ رہے ہیں، علامہ نے سب سے زیادہ جس نسل کو مخاطب کیا،وہ نوجوان ہیں،علامہ کہا کرتے تھے کہ میری شاعری ہر دور کے نوجوانوں کے لیے ہیں۔اس سیمینار کی کامیابی کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ ایک طرف علامہ کا وہ گھر جہاں آپ نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں،دوسری طرف وہ نوجوان جن سے علامہ کو بہت امیدیں تھیں۔تقریب سے معروف محقق اور اقبال شناس ڈاکٹر انیلا سلیم اور نوجوان محقق اور اقبال اسکالر ڈاکٹر حسن رضا اقبالی نے گفتگو فرمائی۔ان محققین نے علامہ کے عشق ِ رسول اور فلسفہ خودی کو موضوع بناتے ہوئے نوجوانوں کو تلقین کی کہ علامہ کے افکارآپ بھرپور استفادہ کریں،جو قومیں اپنے ہیروز کو یاد نہیں رکھتی یا ان کے پیغام کو پس پشت دال دیتی ہیں،دنیا ان کو فراموش کر دیتی ہے اور بہت پیچھے دھکیل دیتی ہے۔علامہ محمد اقبال صرف ہمارے ہی قومی شاعر نہیں بلکہ امت مسلمہ کے ایک عظیم مصلح تھے،انھوں نے اپنی علمی و فکری نظریات سے امت مسلمہ کی وحدت کو موضوع بنایا،آپ نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺکی امت کودنیا کی امامت کرتے دیکھنا چاہتے تھے۔،وہ چاہتے تھے کہ’’ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک‘‘ مسلمان جسمِ واحد کی طرح ہو جائیں۔تقریب سے نواسہ اقبال،میاں اقبال صلاح الدین نے بھی خطاب کیا اور انھوں نے اتحاد عالم اسلام اور مسئلہ فلسطین پر گفتگو کی،انھوں نے واضح انداز میں کہا کہ اگر ہم علامہ کو پیغام کو سمجھتے ہوئے متحد ہو جائیں تو مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر چند لمحوں میں حل ہو جائے مگر ہم نے اقبال کو فراموش کر دیا اور دنیا لالچ میں گرفتار ہو گئے۔

julia rana solicitors

تقریب کی میزبان پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین (ڈائریکٹر ادارہ زبان و ادبیاتِ اردو)نے لفظ جاوید کی استعاراتی تفہیم پر سیر حاصل گفتگو کی،علامہ نے شاعری میں جہاں بھی جاوید کا استعارہ کیا،وہاں ان کا مقصد عالم اسلام کا نوجوان تھا،وہ نوجوان جس کے بارے علامہ کہتے ہیں کہ وہ قومیں تلواروں اورتوپوں کے بغیر بھی جنگ جیت جاتی ہیں ’’ہو جن کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد‘‘۔اگر ہمارے نوجوان علامہ کے فلسفہ عشق ِ رسولﷺ،فلسفہ خودی اور فلسفہ اتحاد عالم اسلام پر عمل پیرا ہو کر علامہ کے افکار سے روشنی پائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمیں سرآنکھوں پر بٹھائے گی۔ڈائریکٹر آثار قدیمہ اقبال خان منج کی گفتگو نے تادیر سحر طاری کیے رکھا،ان کی گفتگو اور نظریات کی شفافیت سے لگ رہا تھا کہ انھوں نے علامہ کو علامہ کی دنیا میں جا کر پڑھا ہے،انھوں نے اس مصرعہ کو سمجھ لیا ہے کہ ’ ’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ ِ زندگی‘‘۔تقریب سے کیوریٹر جاوید منزل حامد نذیر نے بھی گفتگو کی اور نوجوانوں سے گزارش کی کہ آپ اس تاریخی عمارت میں آتے رہا کریں، علامہ سے ملاقات کی سب سے بہترین جگہ ان کا گھر ہے جہاں وہ بیٹھ کر خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اور مسلسل شعر کہے،وہ منزل جہاں علامہ کلام پاک کی تلاوت کرتے ہوئے اتنا روتے تھے کہ آنسووں سے ان کا چہر ہ تر ہو جایا کرتا تھا،راقم نے نوجوانوں سے گفتگو میں اقبال کا درج ذیل قطعہ پڑھا:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply