پاکستان کے ہاتھ سے نکلتے افغان

پاکستان کے ہاتھ سے نکلتے افغان
خالد عزیز
وطن عزیز کے ارباب اختیار گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان کے حوالے سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ سہولیات کی بندش کے ذریعے افغان حکومت کو مختلف امور پر اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جائے- یہ پالیسی محدود مدتی مسائل میں بالادستی حاصل کرنے کیلئے یقیناََ کارآمد رہی ہے۔ لیکن افغانستان کے اندر گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، ان کے مدنظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ہتھیار کارآمد نہیں رہے گا- اس کی وجہ یہ ہے، اور یہ میں کوئی انکشاف نہیں کر رہا، کہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ہماری طرف سے افغانستان کو ان اقدامات کے ذریعے بار بار زچ کیا گیا تو افغان حکومت نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا تاکہ پاکستان پر انحصار کم سے کم کرنے کیلئے دیگر ذرائع کام میں لانے کی ترکیب کی جائے- اس موقع پر ایرانی حکام نے آگے بڑھ کر افغانستان کو چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے راہداری کی پیشکش کی- اور کچھ ہی عرصہ میں ہرات کو چاہ بہار سے بزیعہ ہائی وے منسلک بھی کردیا- ادھر بھارت کے تعاون سے چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع پر تیزی سے کام جاری ہے- ڈان اخبار کی چند ماہ پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی نوے فیصد درآمدات اب کراچی کی بجائے چاہ بہار بندرگاہ سے ہوتی ہیں-
یہ تو ابھی گزشتہ سال کی خبر ہے کہ چین سے ایک ٹرین اٹھارہ ایک دن مسافت طے کرکے افغانستان پہنچی-
افغانستان میں امریکہ کی آمد کے بعد پہلے دس بارہ سال افغان ان دو سوالوں کے گرداب میں پھنسے رہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلے گا یا نہیں، اور اگر نکلے گا تو اس کے بعد کیا ہوگا- ان سوالات کا جواب امریکہ اور افغان حکومت سمیت کسی کے پاس نہیں تھا اور نتیجتا” افغان بحیثیت قوم ایک بے یقینی کی کیفیت سے دو چار رہے- واضح رہے کہ افغان پہلے سے ہی تقریبا” دو عشروں پر محیط انتشار کے نفسیاتی مسائل سے نبردآزما تھے لہذہ قدرتی طور پر افغانی قوم اعتماد کے شدید فقدان کا شکار تھی- لیکن دو ہزار چودہ میں امریکہ نے افغانستان میں دس سال تک مزید قیام کا اعلان کیا تو اس صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آئی- اس دوران افغانوں کی حالیہ تاریخ کے دوران پہلی مرتبہ ایک حکمران اپنا جمہوری دور مکمل کرکے رخصت ہوا اور ایک طویل انتخابی تنازعے کے بعد بغیر کسی خون خرابے یا افراتفری کے انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوا- ان واقعات نے افغانوں کے اعتماد میں اضافہ کیا اور وہ پہلی دفعہ اپنی حکومت اور موجودہ آئین کو سنجیدہ لینے لگے- اوپر سے بھارت نے افغانستان کے اندر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی اور حال ہی میں ایک ایسے ڈیم کی تعمیر مکمل کی جس نے افغانوں کے اعتماد کو چار چاند لگا دئے-
واضح رہے کہ اس پورے عرصہ کے دوران افغانستان میں ممکنہ طور پر سب سے مضبوط کھلاڑی یعنی پاکستان میدان سے مکمل طور پر باہر رہا-
افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد پاکستان آتے جاتے ہیں- ان میں وہ قبائل بھی ہیں جو دونوں جانب آباد ہیں، سرحد کے آر پار قانونی و غیر قانونی تجارت کے لئے آنے جانے والے تاجر بھی ہیں اور ظاہر ہے شدت پسند بھی- لیکن جو لوگ افغانستان کی مجبوری کے زمرے میں آتے ہیں، وہ وہ مریض ہیں جو پاکستانی نجی و سرکاری ہسپتالوں اور کلینکس سے علاج کراتے ہیں- گزشتہ سال کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق افغان مریضوں نے بھی پاکستان پر انحصار کم کردیا ہے اور اسلام آباد اور پشاور کے نجی ہسپتالوں میں افغان مریضوں کی آمد میں دو تہائی کمی واقع ہوچکی ہے-
اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ افغانستان پر اثر انداز ہونے کیلئے یہ حربہ زیادہ عرصہ تک قابل استعمال نہیں رہے گا-
لیکن معاملات کو اس نہج پر نہیں چھوڑا جاسکتا- افغانستان سے ہمارے جو مفادات وابستہ ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ ہم افغانوں کو اپنے ھاتھ سے نہ نکلنے دیں- دوسری جانب افغانستان کے آپشن جس قدر بڑھ رہے ہیں، ہمارے آپشن اتنے ہی گھٹ رہے- سی پیک کی لانچ کے کچھ عرصہ بعد میں نے فیس بک پہ ایک سٹیٹس دیا تھا، ملک میں تیزی سے بہتر ہوتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے، کہ چائنا تمھارا شکریہ، سی پیک منصوبہ معجزے برپا کروا رھا ہے- آپکا کیا خیال ہے دسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے امن و امان کی گارنٹی نہیں لی گئی ہوگی؟ مطلب ھم طالبان کیلئے بھی مزید کارآمد نہیں رہے-
تو اس صورتحال میں ہم افغانستان کے اندر اپنا اثر و رسوخ کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟
میرا خیال ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہم افغانوں کو صرف بھائی چارے اور فراخدلی کےذریعے ہی قابو کرسکیں گے- پاکستان کو یہ قدرتی فائدہ حاصل ہے کہ افغانوں کے لئے ان کے تمام پڑوسیوں کی نسبت پاکستان زیادہ قابل رسائی ہے- افغانستان کی غالب آبادی کیلئے پاکستان بلکل بھی کوئی اجنبی ملک نہیں کیونکہ یہاں ھر صوبے اور تقریبا” ہر شہر میں ان کے ہم زبان موجود ہیں- پاکستان انہیں بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کا سب سے آسان راستہ فراہم کرتا ہے، لہذہ جب بھی افغانوں کے سامنے آپشن آئیں گے، وہ مجبورا” پاکستان کو ہی چنیں گے- ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس قوم کے حوالے سے دیرینہ تصورات پر نظرثانی کی جائے اور ان کے ساتھ دوست، بھائی اور ایک اچھے پڑوسی کا روویہ رکھا جائے ورنہ بہت جلد ھم انہیں پکے پھل کی طرح بھارت اور ایران کی جھولی میں گرتا ہوا دیکھیں گے جو انہیں ہماری نسبت بہت زیادہ احترام سے برتتے ہیں-

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply