ملازمت پیشہ خواتین اپنی تنخواہ کہاں خرچ کریں ؟

آج کل یہ بحث بڑے زور و شور سے چل نکلی ہے کہ کیا خواتین کو جاب کرنی چاہیے یا نہیں؟ وہ خواتین جو غیر شادی شدہ ہیں اور جو شادی شدہ ہیں اگر وہ جاب کرتی ہیں تو ان کی تنخواہ کس پر خرچ ہونی چاہیے آیا وہ اپنے والدین یا اپنے شوہر کے والدین پہ اسکو خرچ کر سکتی ہے یا نہیں؟
پہلے تو ہمیں اس بات کا احاطہ کرنا چاہیے کہ خواتین کا نوکری کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ دین اسلام غیر شادی شدہ لڑکی کی کفالت کی ذمہ داری باپ اور بھائی پر ڈالتا ہے اور شادی شدہ خاتون کی اسکے شوہر پر یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا معاوضہ بھی اپنے شوہر سے لے سکتی ہے جب مذہب ایک خاتون پر کوئی معاشی بوجھ نہیں ڈالتا تو وہ کیا وجوہات ہیں جس کی بنا پر آج کی عورت نوکری کرنے پر مجبور ہے۔۔
آج کے ترقی ياقتہ دور میں انسان کو جہاں اور بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں وہاں صحت کے حوالے سے بھی بہت ساری پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں، ہیلتھ سکیڑ میں ہمیں خواتین چاہییں جیسے زچہ بچہ کے شبے میں، اس کے علاوہ نرسز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، پیرامیڈیکل سٹاف اور خاص طور پر الٹرا ساؤنڈ سے منسلک جتنے بھی شعبے ہیں، ہمارے ہاں آج بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو لڑکیوں کی نوکری کے خلاف ہیں لیکن اپنی خواتین کا علاج کسی لیڈی ڈاکٹر سے کروانا چاہتے ہیں۔ دوسرا شعبہ ہے تعلیم کا جہاں وقت سے پہلے جوان ہوتے ہوئے بچوں کو ہم مخلوط نظامِ تعلیم کا حصہ نہیں بنانا چاہتے، ہمیں اپنی بیٹیوں کے لیے استانی ہی چاہیے ہوتی ہے کیونکہ حالات کو اس قدر مشکوک بنا دیا گیا ہے کہ ہم مرد اساتذہ پر اعتبار نہیں کر پا رہے ہیں ۔
تیسرا شعبہ شاپنگ پلازے ہیں جہاں خواتین کی ضرورت کی اشیاء مہیا ہوتی ہیں۔۔اب سوال یہ ہے کے یہاں نوکری کرنے والی خواتین کی تنخواہ کن لوگوں پر خرچ ہونی چاہیے؟۔۔۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جس پر خود خاتون خرچ کرنا چاہے۔۔ اس پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے، شادی سے پہلے ایک خاتون جب نوکری کرتی ہے تو آہستہ آہستہ اپنے بھائیوں کو اپنی اور والدین کی ذمہ داری سے بری کر دیتی ہے، والدین کے نان نفقہ کی ذمہ داری بیٹوں پر ہوتی ہے لیکن والدین کی محبت میں بیٹیاں یہ ذمہ داری خود اٹھا لیتی ہیں جو شادی کے بعد ان کے لیے مسائل کا باعث بنتا ہے، سسرال والے چاہتے ہیں چونکہ یہ پہلے اپنے ماں باپ کے گھر میں خرچ کرتیں تھیں تو اب یہاں بھی کريں، اور جو نہیں کرتیں ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے وہ اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھتیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ خواتین کو انتہائی مجبوری کے علاوہ جاب نہیں کرنی چاہیے چونکہ ہمارے معاشرے میں یہ اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ مرد گھر بیٹھ کر گھر کے کام کرے یا بچے پالے تو ایسے میں عورت کو دوہری ذمہ داریوں کا بوجھ خود پر اٹھانا پڑتا ہے۔ پھر ہمارے یہاں چونکہ مشترکہ خاندانی نظام ہے اس لیئے بہت سے مسائل کا بھی سانا کرنا پڑتا ہے جن سے نبردآزما ہونے کیلئے پیار، محبت اور سلوک کا دامن تھامن ضروری ہےسسرال میں بھی میکے جیسی اپنائیت دکھائیے زندگی سہل ہو جائے گی۔

Facebook Comments

زینی سحر
خواب دیکھنے والی لڑکی جو اپنے لفاظوں سے خوابوں کو تابیر دیتی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply