پاکستان میں صحت کے عنوان پر کیا ہو رہا ہے ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس داستان خونچکاں سے بے خبر ہو۔ریاست مراکز صحت میں کتنی بے بس ہے ذرا کسی سرکاری ہسپتال میں درد سے کراہتے وجود دیکھ آئیے ،آپ کیا سمجھتے ہیں بلبلاتے نفوس بے بس پڑے ہیں۔۔۔ نہیں حضور والا نہیں۔۔۔ افراد نہیں ریاست کراہ رہی ہے،دھرتی ماں کے سینے سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں اور ایک جنس ہے جو اس کرب کے ہنگام میں بھی ہنسوڑ وبے پرواہ ہے جسے کہنے کو تو ڈاکٹر کہتے ہیں مگر وہ ہے کیا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
”ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“ اور ”رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز “ کی رپورٹس کے بکھرے صفحات اس طبقے کی علمی لیاقتوں کو طشت ازبام کیے ہوئے ہیں ،رپورٹس کے مطابق 2016 سروے کی تجزیاتی کاوش بتلاتی ہے کہ دنیا کے ساڑھے پانچ ہزار بہترین ہسپتالوں میں پاکستان کا نام کہیں نہیں،نیز جنوبی ایشیا کے بیس بڑے ہسپتال بھی پاکستان نام کی کسی ریاست سے آشنا نہیں ، سپین کے ریسرچ گروپ csic کاتحقیقی مطالعہ بتلاتا ہے کہ ہسپتالوں میں موجود سہولیات،آلات،سپیشلسٹ ڈاکٹرز،صفائی کے معیار اور تحقیقی سکالرز کے تعلق کے ہمہ جہتی پہلو ؤں سے پاکستان کے یہ مسیحا اور ان کی دست اندازی کے مراکزکوئی شناسائی نہیں رکھتے،تعلیمی پس منظر ذرادیکھیے۔۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں 118 میڈیکل کالجز میں سے صرف دس کالج ایسے ہیں جن کے نظام تعلیم کو معیاری کہا جا سکتا ہے،باقی جملہ میڈیکل کالجز سماج سے کھلواڑا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
سرکاری ہسپتال طوفان بدتمیزی کی آماجگاہ کے سواکچھ نہیں،رشوت وکرپشن کی کارستانیوں کے علی الرغم ڈاکٹر ز کا رعونت بھرا لہجہ اور فرعونی مزاج کی درشتی مریض ولاچار وجودوں کا کس بل نکال کر رکھ دیتی ہے،آپ بنا آشنائی جا کرتو دیکھیے چودہ طبق روشن نہ ہوئے تو کہنا،سینئرڈاکٹرز خوش گپیوں میں مصروف جبکہ ینگ ڈاکٹرز کا ایک ایسا ناتجربہ کار طبقہ مریض کومشق ستم بنائے ہوتا ہے جوتشخیص امراض کے عنوان پر ایک لامتناہی شکنجے میں جکڑ کر مریض کو اپنی تجربہ گاہ بنائے رکھتا ہے،ایک سروے کے مطابق ساٹھ سے ستر فیصد لوگ ڈاکٹرز کے نارواسلوک کی بنیاد پر ان نجی پرائیویٹ کلینکس میں جانے پر مجبور ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ بتلاتی ہے کہ پاکستان اپنے مجموعی قومی پیداوار کا جو صرف دوفیصد حصہ صحت پر لگا رہا ہے وہ بھی ڈاکٹرز اور سٹاف کی خوردبرد کے زیر اثر ہے،ایک تجزیے کے مطابق پچاس فیصد سے زائد زچگیاں گھروں میں ہوتی ہیں جبکہ”دی لانسٹ“ کی مطالعاتی رپورٹ کہتی ہے کہ 2015 میں مردہ بچوں کی پیدائش پوری دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہوئی،یہ شرح افریقی ممالک سے بھی زیادہ ہے،20 ایشیائی بڑے ہاسپیٹلز میں 19 بھارت کے اور 01 بنگلہ دیش کا بتلایا جا تا ہے،دیہی علاقہ جات مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے ہیں ،ساٹھ فیصد سے زائد دیہی مراکز کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں جبکہ وہاں موجود عملہ وسٹاف لاکھوں ماہانہ بٹوررہا ہے،جعلی دستاویزات سے سرکار کو مطمئن کرکے اپنی تجوریاں بھری جارہی ہیں،ہیپاٹائیٹس کے مریضوں کی تعداد کروڑوں میں جبکہ دس فیصد ہارٹ پیشنٹس بائی پاس آپریشن کے انتظار میں سٹرکچرز پر ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں،انجیوگرافی کے لیے اوسطاً سات سے آٹھ ماہ جبکہ بائی پاس کے لیے ایک سال سے زائد عرصے کا انتظار کروایا جا رہا ہے۔
پرائیویٹ کلینکس میں صحت کے نام پر چلنے والا دھندہ اندھیر نگری میں چوپٹ راج کا منظر پیش کررہاہے،ڈاکٹر زکے دس منٹ کے چیک اپ دورانیے تک رسائی کے لیے ہزاروں لگادیے جاتے ہیں،ریاست مگر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے،بلبلاتے وجود ان بے رحم ڈاکٹرز کے مشق ستم بنے ہوئے ہیں،انسانیت سسک رہی ہے مگر آہ !وہاں کوئی دل رکھتا ہے نہ ہمدردی،آپ جتنے بڑے مرض میں مبتلا کیوں نہ ہو ں کسی کو التجائے تعاون کرناحماقت کے سوا کچھ نہیں،پرائیویٹ کلینکس میں میٹھے میٹھے بول سنانے والے اس گروہ کا اصلی چہرہ اگر دیکھنا ہو تو سرکاری ہاسپیٹلز سے ہو آئیے،
افسوس مگر ارباب حل وعقد کے رویے پر ہے،اپنے زکام تک کے علاج کے لیے بیرون ملک روانہ ہونے والے اس طبقے کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ ملکی پیداوار کا صرف دوفیصد سالانہ یہ ہماری صحت کے لیے مختص کرتاہے،سالانہ بجٹ میں ایک سو روپے سے کم ایک فرد کے لیے محکمہ صحت کے حوالے کیا جا رہا ہے،اس حوالے سے جملہ صوبوں کے ارباب اقتدار یکساں تغافل کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں،سندھ کے ہسپتالوں کی حالت زار کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو سوموٹو ایکشن لینا پڑتا ہے،ڈھائی ہزار ہسپتال کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں ،خیبر پختونخوا پشاور کے لیڈی ریڈنگ کو ہی سنبھال نہیں پارہا، چھ لاکھ افغانی اور سولہ لاکھ آئی ڈی پیز کے بوجھ تلے دبا یہ ہسپتال آوٹ پٹ دے تو کیسے؟
لاہور میں گذشتہ سات سالوں میں صرف دوہسپتال بن پائے،سوا دوکروڑ کی اس آبادی کے لیے دل کا صرف ایک ہسپتال بنا کر طفل تسلیاں دی جارہی ہیں بلوچستان کے کل اٹھائیس سرکاری ہسپتالوں میں سے صرف پانچ میں سپیشلسٹ ہیں،480 اسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ صرف ایک میڈیکل کالج پورے صوبے کے صحت کے مسائل سے نبردآزما ہے،بیس کروڑ آبادی کے لیے چند ہزار علاج گاہیں اور ان میں ادویات ،ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل سٹاف،بیڈز اور دیگر مشینری کی انتہائی قلت حکمرانوں کی بے توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں،آئی سی یو کسمساہٹ کا منظرنامہ بنا ہوا ہے،جس یونٹ میں ایک نرس ایک بیڈ کے لیے درکار ہے وہاں تین بیڈز کو ایک نرس دی جاتی ہے،تربیت یافتہ نرسنگ سٹاف ہے نہ وینٹی لیٹر جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہر دس میں سے ایک مریض آئی سی یو کی حاجت رکھتا ہے،پولیو،خسرہ،ڈینگی،ہیپاٹائیٹس اور کینسر نے پورے سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،اور وابستگان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
لاریب کہ کوتاہی عوام ہی کی ہے،برسراقتدار طبقہ جن کی ووٹ کی طاقت سے ہی منتخب ہو کر ان پر ستم بالائے ستم ڈھا رہا ہے،ترقی یافتہ سماج اسی نکتے پر توجہ مرکوز کر کے آگے بڑھے،ہمارا مگر مسئلہ اسی زاویہ نگاہ کو نظر انداز کرنا ہے،صحت کسی بھی سماج کی سرگرمیوں کی اساس ہے،ہمیں خود ہی اس لاینحل عقدے کی گتھیاں سلجھانی پڑیں گی،ارباب حل وعقد سے اپنی صحت کے بنیادی حقوق لینے ہوں گے اور انہیں مجبور کرنا ہوگا کہ سرکاری ہسپتالوں کا داخلی نظم بہتر بنایا جائے،ہوس کے پجاریوں کو گھسیٹ کر باہر نکالیں،خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے کرداروں کو موقع دیا جائے،ڈاکٹرز کے لیے فریم ورک اور ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے،دنیا کی ترقی یافتہ سوسائٹیز کے نظام صحت کا بنظر غائر مطالعہ کر کے اپنے نظام صحت کو اس سے ہم آہنگ کیا جائے،پرائیویٹ کلینکس اور ان کے سماجی اثرات کو مکالمہ کا موضوع بنایا جائے،میڈیکل کالجز میں دینیات واخلاقیات کو نصاب کا حصہ بنا کر نئے بننے والے ڈاکٹرز کی ذہنی واخلاقی تربیت کی جائے تاکہ وہ اس کام کو کاروباری زاویہ نگاہ کے بجائے خدمت خلق اور دینی نکتہ نظر سے سرانجام دیں،ہمیں سسکتی انسانیت کے لیے کچھ کرنا ہوگا اور میرے خیال میں جس قدر جلد ممکن ہو ہمیں وہ سب کردینا چاہیے جسے کرنا وقت کی اہم آواز اور حالات کا ا بدی تقاضا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں