کوٹ لکھپت جیل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج سجاد احمد زینب قتل کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
دوران سماعت ملزم عمران کے وکیل نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا، جن کا کہنا ہے کہ اقرار جرم کے بعد ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ سفاک ملزم کا کیس لڑوں۔
خیال رہے کہ سماعت کے پہلے روز فرد جرم عائد ہونے پر ملزم عمران نے اقرار جرم کرلیا تھا تاہم عدالت نے ملزم کے اعترافی بیان کے بعد بھی ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔
ملزم عمران کے وکیل کی جانب سے دستبرداری کے بعد پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے زینب قتل کیس کے ملزم کو سرکاری وکیل مہیا کردیا اور اب محمد سلطان ملزم عمران کی وکالت کریں گے۔
زینب قتل کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گیے اور آج شہادتوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کل ملزم عمران کا بیان قلمبند کیا جائے گا۔
عدالت میں اب تک 36 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جا چکے ہیں جب کہ بیانات قلمبند کرانے والوں میں زینب کے چچا اور 5 سال کا بھائی بھی شامل ہے۔
زینب قتل کیس—کب کیا ہوا؟
پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش گذشتہ ماہ 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔
زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔
جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران علی کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔

ملزم عمران ان دنوں پولیس کی تحویل میں ہے جس کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہورہا ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں