رانا صاحب ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے۔ نہ جانے کیسے انہیں سیاست کی لت پڑ گئی اور انہوں نے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔جب رانا صاحب نے پہلا الیکشن لڑا تھا تب ان کے مدمقابل اُس دور کا مقبول اور کامیاب سیاستدان الیکشن سے ایک دن پہلے اغوا ہو گیا تھا اور آج تک اس کا کچھ پتہ نہیں چلا اور ان کے علاوہ جو امیدوار تھا وہ اتنا مضبوط نہ تھا کہ رانا صاحب سے الیکشن جیت سکتا۔ دوسرے الیکشن پر ان کے مخالف چار امیدوار تھے جن میں سے دو ایکسیڈنٹ میں زخمی ہو گئے جب کہ تیسرے نے کاغذات نامزدگی کسی نجی مجبوری کی وجہ سے واپس لے لیے تھے۔چوتھا امیدوار بہت کمزور تھا جس نے اپنی الیکشن مہم چلائی ہی نہیں۔ کہتے ہیں سب امیدواروں کو رانا صاحب کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔تیسرے الیکشن میں رانا صاحب نے جلسے میں ببانگ دہل اعلان کیا کہ جو کوئی ان کے مقابلے میں کاغذات جمع کروائے گا وہ اپنی زندگی کا خود ذمہ دار ہو گا۔ ایک نوجوان نے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک خودکش دھماکے میں مارا گیا۔
بس اس کے بعد کوئی ان کے مدمقابل کھڑا نہ ہوا۔انہوں نے غنڈوں کی ایک فوج پال رکھی ہے جو ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بند کر دیتی ہے اورہر آواز کے بند ہونے پر رانا صاحب سوگوار سی شکل بنائے ان کے گھر جاتے ہیں اور چند ہزار روپے متاثرہ گھر والوں کی مالی امداد کے لیے دیتے ہیں۔اب وہاں کے سفید و سیاہ کے مالک رانا صاحب ہی ہیں۔ وہی ان کے حقوق طے کرتے ہیں ، وہی ان کی زندگیوں کے اصول اور قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔رانا صاحب وہاں کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں لوگ اب ان پر جانیں نچھاور کرتے ہیں۔۔۔۔!!!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں