ایک دوست فرماتے ہیں کہ تاریک راتوں میں 4 مخلوقات ہی سڑکوں پر نظر آسکتی ہیں۔ پولیس والا، چور ڈکیت ، کتے یا پھر ٹیلی کام والے۔
سرد راتوں میں تو شاید کتے اور پولیس والے بھی نظر نہ آئیں البتہ روڈ پر کوئی نظر آ جائے تو احتیاط برتیں ڈاکو ہو گا یا ٹیلی کام کا سرپھرا۔ ڈاکو تو پھر بھی لوٹ کے چلا جائے گا لیکن ٹیلی کام والے نے دماغ کی ایسی دہی جمانی ہے کہ بھاگنا تو درکنار جان چھڑانا بھی مشکل نظر آئے گا۔
ویسے میری رائے میں تو چوتھا آپشن بھوت پریت ہونا چاہیے تھا لیکن ہو سکتا ہے صاحب فکر ٹیلی کام والوں کو جنات کے کسی قبیلہ کے گمشدہ افراد سمجھتے ہوں۔
ویسے ٹیلی کام یا ٹیلی کمی سے آپ پنجابی لفظ “کمی” کے مغا لطہ کا شکار مت ہوں۔ منہ اندھیرے سے غروب آفتاب تک وڈیرہ جاگیردار ملک یا چوہدری صاحبان کی خدمت میں جتے رہنا اگر کمی کہلاتا ہے تو یہ بیچارے طلوع آفتاب سے اگلے طلوع آفتاب تک جتے رہنے والے کیا کہلائے جائیں گے۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی ہم تو ٹھنڈے دسمبر سے خوشگوار فروری تک کا ٹیلی کمی سفر کرنا چاہتے تھے۔جیسے ہی دسمبر وارد ہوتا ہے ملازمین نئے سال کی خوشیاں مناتے ہیں۔ آنے والے پروجیکٹس اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ پچھلے سال کے ریونیو ، منافع ، بونس کی کیلکولیشن زیر بحث ہوتی ہیں۔ کوئی سالانہ انکریمنٹ کا متمنی اور کوئی گولڈن ایوارڈ کی آس بلکہ گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ نئے سال چھٹیاں کس شہر یا ملک میں گزاری جا سکتی ہیں۔ اس بار کمپنی کون سا فیملی بینیفٹ بڑھانے میں سیریس نظر آ رہی ہے۔
ہائے اس کے بچوں کا ماموں کہنا۔ خوابوں کی جنت سے نکل آئیں پاکستان میں کسی بھی ٹیلی کام کمپنی میں ایسے خیالی پلاؤ پکانے کے لئے حرارت موجود نہیں۔ جیسے ہی دسمبر کا آغاز ہوتا ہے۔ سالانہ ٹارگٹس کی تکمیل کے لئے شبانہ روز بھاگ دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ منگنی ، مہندی شادی ، ولیمہ، مرگ تیسرا ،ختم ،قل، چالیسواں، میلاد ، مجلس ،سیروتفریح، پیار محبت ، یارانے غرض کہ جتنے بھی ویلے لوگوں کے کام ہیں وہ آپ پر حرام قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ ویسے دسمبر میں خصوصی ہدایات دی جاتی ہیں ورنہ سال بھر ان اعمال کو اس فیلڈ کے افراد کے لئے مکروہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔
اب پل بھر کے لئے سوچیں کہ جیسے ہی مطلوبہ اہداف حاصل ہو جاتے ہیں اس کے بعد ریوارڈ یا ایوارڈ میں کیا ملنا چاہیے؟
ریوارڈ یہ ملتا ہے کہ لسٹ فائنل ہو چکی ہے کچھ لوگ جنوری میں فارغ ہو جائیں گے کچھ کا نمبر پہلے کوارٹر کے بعد اپریل کی لسٹ میں شامل ہے۔ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ میں دو طرح کی کیٹیگریز ہیں ایک بنا نوٹس فارغ اور دوسری کیٹیگری کو ایک ماہ کے نوٹس پر ریلیز کردیا جاتا ہے۔ اگر پثرمردگی، کچھ چھن جانے کے خوف اور ہونی انہونی کی سوچ سے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے تو ایسی کمپنیز کے ملازمین کیا خاک ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔
ہر کمپنی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بجٹ کے مطابق ملازمین رکھے یا فارغ کردے لیکن جب بھی کوئی کمپنی کسی ملازم کو فارغ کرتی ہے تو کیا فوری یا ایک ماہ کے نوٹس پر ریلیز کردینا کن قوانین کے تحت ہے؟ حکومتی ادارے کیا ان پرائیوٹ کمپنیز کوپابند نہیں کرسکتے کہ جب بھی کسی ایمپلائی کو فارغ کیا جائے گا تو ایک سال کی سیلری ادا کرنا لازم ہوگا یا اس سے بہتر مراعات کے ساتھ قوانین مرتب کیے جائیں تاکہ ٹیکنیکل فیلڈ کے ملازمین بیروزگاری کے عفریت کا شکار نہ بنیں۔
بہت سے دسمبر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوئے اور ہر دسمبر سے مارچ تک یہی کہانی دہرائی جاتی رہی اور نا جانے کب تک انجینئرز اس ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ اس امید پر اپنی آواز حلق پھاڑ کر بلند کرتے رہے کہ شاید ارباب اختیار تک پہنچ جائے
جب سے چائنیز زبان کے بارے میں سینٹ کا بیان آیا ہے اب تو ہر طرف مایوسی کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے نظر آ رہے ہیں ابر باراں کی امید کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ٹیلی کام کمپنیز پر پاکستان میں 80 فیصد چائنیز کی ہی اجارہ داری ہے اور جہاں آواز پہنچانی ہے اس حاکم نے زنجیرعدل پر چائنیز میں ہی ہدایات درج کرنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں