خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینا ہمارے معاشرے کی ایک فرسودہ روایت ہے۔ اگر کسی موقع پر بادل نخواستہ حصہ دینا بھی پڑ جائے تو اس میں ڈنڈی مارنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔ ملک کے دور دراز علاقوں خاص طور پر اندرون سندھ بعض علاقوں میں یہ قبیح فعل اس قدر جڑ پکڑ چکا کہ بعض لوگ جائیداد میں بہنوں کا حصہ بچانے کے لیے ان کی قرآن سے شادی کرا دیتے ہیں۔ بہنیں پھر باپ کے گھر میں بھائیوں کے رحم و کرم پر بال سفید کرلیتی ہیں۔
اس روایت کی ایک جھلک ٹی وی ون سے نشر ہونے والے ڈرامہ ْتو جو نہیںٗ میں دکھا یا گیا ہے جہاں درد دل اور باپ کی نصیحت کا پاس رکھنے والے چوہدری مقصود جائیداد میں اپنی بہن کا حصہ اس کی بیٹی نشا کے سپرد کرنا چاہتے ہیں لیکن چوہدری مقصود کی بیوی اور اس کا بیٹا سمیر اس راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں حائل کرتے ہیں۔ جب ان کی چالیں ناکام ہوتی دکھائی دینے لگتی ہیں تو نشا کو بہو بنا کرجائیداد اپنے قبضے میں رکھنے کی سازش بنالیتے ہیں۔
تو جو نہیں کی پچھلی اقساط میں سمیر اور اس کی والدہ نشا کو ڈرا دھمکا کر چوہدری مقصود سے دور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ چوہدری مقصود نشا سے مل نہ سکے ۔ اس چکر میں سمیر نشا کے تایا کے گھر تک پہنچ جاتا ہے اور وہیں پہنچ کر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پھوپھی کی بیٹی نشا در اصل وہی لڑکی ہے جس نے پارک میں محسن سے لڑائی کے دوران سمیر کو تھپڑ مارا تھا۔ بالکونی پر کھڑی نشا کو دیکھ کر سمیرکی نیت مزید خراب ہو جاتی ہے اور وہ جائیداد کے ساتھ ساتھ نشا کو بھی حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔

سمیر نوکرانی پر پستول تان کر نشا کا نمبر حاصل کرتا ہے اور اس کو فون بھی کرتا ہے اور اس بات کا ذکر اپنی والدہ سے کرتا ہے۔ اس کی والدہ بھی اس آئیڈیا سے متفق ہوجاتی ہیں اور دونوں ملکر چوہدری مقصود کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ نشا کا رشتہ سمیر کے لیے مانگا جائے تاکہ جائیداد بھی اپنے پاس ہی رہے۔
چوہدری مقصود اس مشن نشا کے تایا کے گھر پہنچ گئے ہیں اور نشا سے بھی ملاقات ہوگئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سمیر اور اس کی والدہ کی سازش کامیاب ہوجاتی ہے یا پھر یہ ہتھکنڈہ بھی ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں