کرمو

نا جانے وہ کہاں سے آیا تھا کس دیس کا تھا کون تھا، ایک دن چودھری کے ملازم نے صبح سویرے جانوروں کا اصطبل کھولا تو توڑی کے ڈھیر پر سوتا ہوا چھ سات سال کا ایک بچہ ملا، قصہ مختصر ادھر کا ہی ہو کر رہ گیا، جانوروں کا چارہ پانی اور دیکھ بھال کرنے لگا، اسی ملازم نے اسکا نام کرم دین رکھا ،جو کے بگڑ کر” کرمو” ہو گیا، اور جیسے ہی چند سال گزرے” کرمو “نے اچھا قد کاٹھ نکال لیا، جس پر گاؤں کے چودھری نے اسے چوکیدارے پر رکھ لیا، جوانی تو ہوتی ہی منہ زور ہے لیکن آفرین تھی” کرمو “پر اتنا شریف کے گاؤں کے سب لوگوں کی عزت اپنی عزت کی طرح اور اگر چھ سات سال کی کوئی بچی بھی نظر آ جاۓ تو نظریں فورا ًزمین پر۔
چودھری نے گاؤں میں ہی تقریبا 5ً مرلہ زمین “کرمو” کو گھر بنانے کے لیے دی جہاں اس نے کچا پکا سا گھروندہ بنا لیا تھا۔
کرمو گاؤں کے ہر فرد کو اپنا سمجھ کر ملتا تھا اور جان و مال کے ساتھ ساتھ ان کی عزتوں کی حفاظت بھی اسی کے ذمہ تھی، اس کے ہوتے ہوے گاؤں والے ایسے پرسکون سوتے تھی جیسے بچے اپنی ماؤں کی گود میں۔ چور اچکے اور رسہ گیر اس گاؤں کا راستہ بھول گئے تھے اسی طرح “کرمو” نے 35 سال اس گاؤں کی حفاظت میں گزار دیے بغیر ناغہ کے۔لیکن آج ایک انہونی ہو گئی وہ” کرمو” جس نے کے 35 سالہ نوکری میں کبھی چھٹی نا کی تھی آج اپنے کام پر نا تھا، امام صاحب نے نماز کے فورا ًبعد ایک لڑکے کو” کرمو” کی طرف بھیجا، تو پتہ چلا کے کرمو سخت بیمار ہے اور چارپائی سے اٹھ بھی نہیں سکتا، اتنی دیر میں اجالا ہونا شروع ہوا اور لوگ بھاگم بھاگ “کرمو “کے گھر طرف پہنچے، کرمو نے نقاہت بھری آواز میں امام صاحب سے کہا کے میری خواہش ہے کے جو مکان چودھری نے مجھے دیا تھا وہ میرے مرنے کے بعد گرا دیا جاۓ اور اس جگہ ایک مسجد تعمیر کر دی جاۓ تاکہ رہتی دنیا تک میری روح کو ثواب ملتا رہے، اتنا ہی کہنا تھا کے ایک زور دار ہچکی لی اور اپنے رب کی جانب رخصت ہو گیا۔
تجہیز و تدفین کے بعد امام صاحب نے” کرمو” کی وصیت کا اعلان کیا اور تمام گاؤں والے جو کے” کرمو” کے حسن سلوک سے انتہائی متاثر تھے، اس بات پر فورا ًتیار ہو گئے اور یہ طے پایا کے سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالیں گے اور نہائت خوبصورت اور پختہ مسجد کی تعمیر کر کے مرحوم کی روح کو ثواب کی نیت سے اسکی وصیت کو پورا کریں گے۔ اس مقصد کے لیے قریب قریب کے دو تین گاؤں والے بھی اکٹھے ہو گئے۔
ایک دن ایک مولوی صاحب اپنے چند مصاحب کے ساتھ وہاں پہنچے اور چندہ کا ڈبہ رکھ کر بولے کے” کرمو” ربیع اول کے جلوسوں میں باقاعدہ شریک ہوتا تھا اس سے اسکا بریلوی ہونا ثابت ہوتا ہے اس لئے یہ مسجد بریلوی مسلک کی ہوگی، اگلے دن ایک اور عالم وہاں تشریف لے آۓ اور آتے ہی گویا ہوئے، کے محرم کے جلوسوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ 10 محرم کو وہ ماتم بھی کیا کرتا تھا اس لحاظ سے وہ شیعہ مسلک سے تھا اس لیے اس مسجد پر ہمارا حق ہے، قریب ہی پندرہ بیس حضرات کھڑے تھے ان کے سربراہ بولے تین دفعہ تو وہ میرے ساتھ راےونڈ کے چکر لگا چکا ہے وہ تو پکا دیوبندی تھا اس لیے یہ مسجد دیوبندیوں کی ہو گی۔
اب مسجد کی تعمیر کا معاملہ ایک طرف اور باقی مسالک کے درمیان تناؤ بڑھتے بڑھتے یہاں تک ہو گیا کے سارے گتھم گتھااور سر پھٹول شروع، چاروں طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی مسجد کی تعمیر کے لیے آۓ ہوئے ایک دوسرے کی مرمت میں مصروف تھے، عین ممکن تھا کے معاملہ اور آگے تک چلا جاتا ایک دل جلے نے تھانے میں فون کردیا۔ اور پولیس نے رنگ میں بھنگ ملا دیا، 30-35 کو پکڑ کر تھانے اور 20-25 کو ہسپتال۔
چوٹوں کے ساتھ ساتھ دنگا فساد کی دفعات کے تحت عوام کچہریوں میں دھکے کھانے لگی، اور چودھری نے اس مسئلے کے حل کے لیے “کرمو “کے گھر کو پولیس چوکی میں تبدیل کرنے کی درخواست دی۔۔
آج وہ جگہ جس پر” کرمو” کی وصیت کے مطابق مسجد ہونا چاہیے تھی وہاں ایک پولیس چوکی موجود ہے، اور “کرمو “آج بھی
” اس ثواب کا انتظار کر رہا ہے جو کے گاؤں والوں نے اسے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا ”

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply