اب کے معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود برے پھنسے ہیں ۔
ان کا انکشافاتی ہیضہ ان کے گلے پڑگیا ہے اور بالآخر سپریم کورٹ نے ا ن کا وہ معافی نامہ مسترد کردیا ہے کہ جسے دینے سے انہوں نے پہلے بڑی نخوت سے منع کردیا تھا اور اب بڑے ناز نخروں سے اور بڑی تاخیر کے بعد جب یہ معافی نامہ دیدیا گیا ہے تو اسے واپس لوٹا دیا گیا ہے اور انہیں دوٹوک الفاظ میںآگاہ کردیا ہے کہ اب معافی مانگنے کا وقت ختم ہوچکا ہے اور اب انہیں حسب قانون سزا دی جائیگی کیونکہ انہیں اس کے لئے پہلے خاطر خواہ مہلت بھی دی گئی تھی اور نتائج و عواقب سے بھی خوب کیا جاچکا تھا لیکن ان کے منہ سے نکلتا جھاگ تھا کہ تھمتا ہی نہ تھا۔ وہ تو پوری طرح سے اکڑے ہوئے تھے کہ بھلے تحقیقات کروا لو تو سب سامنے لے آؤں گا ۔ حتیٰ کہ اپنے دعووں میں مزید زور پیدا کرنے کے لئے وہ تو یہاں تک چلے گئے تھے کہ اگر میں غلط ثابت ہوا تو بیشک مجھے پھانسی لگادی جائے ۔
شاید وہ اس زعم میں تھے کہ پہلے ان کے ایسے ‘زبردست انکشافات’ کو بھلا کس نے للکارا ہے کہ جو اب کوئی رستے میں آپائے گا ۔۔۔ لیکن اس بار ان سے بڑی چوک ہوگئی کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا تھا ۔ سارے ملک کے عوام کی نظریں زینب قتل کیس کی طرف لگی ہوئی تھیں اور اسے لے کر میڈیا میں ایک طوفان بپا تھا اورایسے میں مجرم عمران علی کے بارے میں ان کے کئے گئے خوفناک انکشافات نے تو تھرتھلی ہی مچادی تھی ۔۔
قصور کی عام سی لوئر مڈل کلاس بستی کے اس مجرم کا بین الاقوامی کرائم مافیا سے تعلق بتایا جانا اوراس کے 37 غیرملکی بینک اکاؤنٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالرز کا ہونا ، کوئی معمولی سا الزام یا انکشاف ہرگز نہیں تھا۔
اب ان کا معافی نامہ میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور ا ن کی صحافتی اقدار کی حقیقت کھول کھول کے بیان کررہا ہے کہ کس طرح ان جیسے لوگ محض ریٹنگ اور مقبولیت کے چکر میں کوئی بھی چونکا دینے والی ،کوئی بھی الزام اور کیسا بھی منفرد انکشاف کرنے کے لئے خود کو آزاد سمجھتے بےلگام پھرتے رہے ہیں بلکہ اب بھی پھررہے ہیں اور انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کے مضمرات اور معاشرے پہ اثرات کیا مرتب ہوسکتے ہیں –
یہاں مجھے میڈیا کے ایک اور نامور اینکر بلکہ بزعم خود سپرمین عامر لیاقت کی وہ تصویر بھی یاد آرہی ہے جو کہ کئی اخبارات و رسائل اورنیٹ پہ متعدد ویب سائٹس پہ شائع ہوئی تھی کہ جس میں وہ جیو/ جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کے سامنے گڑگڑاتے اور ہاتھ جوڑتے نظر آرہے ہیں کہ جن کی بے عزتی اور تذلیل میں اس جعلی ڈاکٹر نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور بول سے ملنے والے راتب کو چاٹ کر وہ جن کو دین اور وطن کا دشمن اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیتے نہ تھکتا تھا۔۔۔!
یہاں تو عوام بالخصوص اہل فکر و نظر کا اور اہل صحافت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس نام نہاد اینکر سے یہ پوچھیں کہ اگر واقعی میر شکیل ایسے ہی ہیں جیسا کہ وہ بول کی سکرین پہ پرچار کیا کرتا تھا تو پھر کیسی معافی اور کہاں کی معافی ۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ عامر لیاقت کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے نہ ہی ثبوت اور اگر ہوتا تو نجانے کب کا پیش کر چکا ہوتا ۔ وہ تو اس سے پہلے بھی یہ کھیل کئی بار کھیل چکا ہے اور کتنے ہی اشراف کو رسواء کرنے اور پھر ان سے معافیاں مانگنے کا اس کا یہ کھیل برسوں سے جاری ہے-
لیکن لگتا یوں ہے کہ عوام لاپرواہ ہوچلے ہیں اور اہل دانش و اہل صحافت بھی بے حس ۔۔ورنہ تو عامر لیاقت اور شاہد مسعود کا یہ الزام تراشیوں اور جعلی ‘خوفناک انکشافات’ ۔ کا سلسلہ بہت پہلے ہی کبھی کا روکدیا گیا ہوتا اور اتنے برسوں سے وہ عوامی اعصاب اور احساسات سے یوں نہ کھیل رہے ہوتے

لیکن اب جبکہ بعد ہزار خرابیء بسیار عدلیہ نے شاہد مسعود کے دیرینہ بےلگام اطلاتی مروڑ کو جلاب دینے کا قدم اٹھا لیا ہے تو اب صرف وہی نہیں بلکہ اور جو چند اینکر صاحبان اسی ڈگر پہ گامزن ہیں تو ان کی حرکات کا بھی خاطرخواہ نوٹس لیا جانا چاہیے اور براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے اینکر صاحبان اور ان کے پروگرام کے پیشکاروں کے لئے ایک ایسا واضح ضابطہ اخلاق وضع کرنا چاہیے کہ جس کی وجہ سے آئندہ کسی اینکر کو یوں کھلا نہ چھوڑا جاسکے کہ جس کے بعد وہ اینکر کی نشست پہ بیٹھتے ہی خود کو ہرقسم کے احتساب سے بالا تر سمجھنے لگتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں