1890 تک امریکہ باقی دنیا سے تقریباً الگ تھلگ رہا, یعنی اسکا عالمی سیاست میں کردار کوئی خاص نہ تھا. 28 جولائی1914 میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں بھی امریکہ غیر جانبدار رہا, لیکن تقریباً تین سال بعد 1917 میں, برطانیہ کی محبت اور مداخلت پر امریکہ بھی عالمی سیاست کا ایک فریق بن کر اُبھرا. اور پھر جو ہوا, سب نے دیکھا کہ امریکہ کی شمولیت نے جنگ میں اتحادیوں کی جیت میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ امریکیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہر کام بہت نپے تُلے انداز میں کرتے ہیں۔ گو کہ کبھی کبھار ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا بھی شکار ہو جاتے, جیسا کہ ویتنام کی جنگ میں دیکھنے کو ملا. کیا ہے جس نے امریکہ کو اس لمبے عرصہ سے عالمی سیاست کا ٹھیکے دار بنا رکھا ہے۔ کہ ہرٹینڈر وہ ہی جیتتا ہےاور پھر جاری بھی وہی کرتا ہے۔ تو سیدھا سا جواب ہے, پالیسیوں کا تسلسل. اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہیلری کلنٹن جیتیں, یا ڈونلڈ ٹرمپ. پالیسیاں یہی رہیں گی، اور خود امریکی صدور عوامی و ملکی خدمت سے ہمیشہ سر شار رہے۔
دُنیا کو مزید نئی جنگوں کا سامنا بھی کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کا نعرہ بھی امریکی صدر سے سننا ہوگا۔ وہ اپنے مفادات کو دیکھ کر کام کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کامیاب ہیں۔ امریکی معیشت War based ہے. وہ یوں کہ وہ جنگی سازوسامان بناتے ہی بیچنے کی نیت سے ہیں۔ بس یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ کا منجن یہی ہے, جنگیں ہوں گی, مخاصمتیں رہیں گی تو تب ہی یہ منجن بکے گا. اور امریکی اپنی معیشت چلانا جانتے ہیں۔ ہنری کسنجر جیسے شہرہ آفاق سفارت کار و سیاست دان کو کون نہیں جانتا, انہی کا قول ہے ، بین الاقوامی سیاست میں کوئی بھی دوست اور دشمن مستقل نہیں ہو تے، یہ بیان محض ایک بیان کےطور پر ہر گزنہیں ہے بلکہ یہ امریکی خارجہ پالیسی کا اصل جزو اور عمومی ڈاکٹرائن بھی ہے. جس کی واضح مثال امریکہ کے چین, ایران اور رُوس سے بدلتے ہوئے نسبتاً بہتر تعلقات ہیں۔
امریکی پالیسیوں کے تسلسل کی اہم وجہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور مداخلت بھی ہے (گو کہ میں ذاتی طور پر کسی بھی ملک کے سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کاسخت مخالف ہوں) لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ طاقتور ترین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ذمہ دار بھی ہے۔ امریکی کابینہ میں اکثر ریٹائرڈ جنرلز کا کردار انکی سیاست کا خاصہ رہا ہے۔ چاہے وہ کولن پاؤل ہوں یا, ڈونلڈ رمزفیلڈ. دوسری جانب دونوں امریکی صدارتی امیدواروں کے درمیان بھی یہ دوڑ لگی ہے کہ کس کی حمایت کتنے ریٹائرڈ جنرلز کر رہے ہیں. ٹرمپ نے تو 88 ریٹائرڈ جنرلز کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ بھی کردیا ہے۔ دوسری جانب امریکی اسٹیبلشمنٹ ہیلری کو صدر بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے کہ ہیلری کی ساڑھے چھ لاکھ ای میلز کو کلئیر قرار دیا گیا جب کہ ایک ہفتہ میں اس قدر کثیر تعداد مواد کی پڑتال نا ممکن سی بات ہے. دنیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہاں کون جیتتا ہے۔ چاہے وہ شام میں باغیوں کا مسئلہ ہو, عراق میں داعش یا کُردوں کا, فلسطین ہو یا کشمیر, بوکو حرام کے منچلوں کی برات کا, افغانستان میں القاعدہ کا, یا کہ پاکستان کو ایف 16 دینے کا, امریکی ہمیشہ اپنے مفاد کا احترام کرتے ہیں، دنیا کو کیا فرق, کہ پالیسیاں تو ہمیشہ ایک ہی رہنی ہیں۔
رام سنگھ اینڈ پریم سنگھ, ون اینڈ دا سیم تھنگ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں