تمام انسانوں میں آزادی، ارادہ اور اختیار اصل ہے، اور اگر اس سلسلہ میں مختلف وسوسے نہ پائے جائیں تو سبھی انسان آزادی اور اختیار کے طرفدار ہوں گے۔ عام فکر وخیال اور فطرتِ انسانی ”نظریہ اختیار“ کی واضح دلیل ہے، جو انسانی زندگی کے مختلف مواقع پر جلوہ گر نظر آتا ہے کیونکہ اگر انسان اپنے اعمال میں خود کو مجبور سمجھے اور اپنے لئے اختیار کا قائل نہ ہو تو پھر کیونکر ذہنی مجبوریوں کے بھنور سے نکل پائے ۔ انسان اپنے کئے ہوئے بعض کاموں پر یا بعض کاموں کے نہ کرنے پر پشیمان ہوتا ہے اور یہ طے کرلیتا ہے کہ اپنے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ ایسا کرکے وہ اپنے مالک کی رضا سے اپنے مسائل سے نبرد آزما ہوتا ہے اگرچہ اسے اپنے مالک کا ہمہ وقت شکر گزار ہونا چاہیئے لیکن وہ بھول جاتا ہے ۔ اللہ اپنے بندے سے مخاطب ہوتا ہے اور بارگاہ ایزدی سے آواز آتی ہے۔۔”اور تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے”، انسان اپنی تخلیق سے لیکر اب تک اپنی تمدنی اور سماجی زندگی میں جن مراحل سے گزرا ہے اس میں اس کی چارفطری حیثیتیں تمام انسانی دنیا میں مسلم رہی ہیں۔ قرآن حکیم نے انسان کی ان چار حیثیتوں کے حدود قرائن کا واضح تعین کیا ہے جس سے وہ اپنی صالح اور کامیاب زندگی کے ساتھ صالح و فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکے۔ فرد، خاندان، قوم اور بین الاقوامیت کی ان چار حیثیتوں کی ہیئت ترکیبی کا توازن قرآن کی رو سے اسطرح سامنے آتا ہے،
انسان فرد: شخصیت نفس ۔
خاندان: اولاد والدین و اقربا۔
قوم: شعوب سماج۔
بین الاقوامیت: اقوام ملت۔
سماجی زندگی کی پہلی اکائی فرد ہے ۔ قرآن حکیم میں انسانی شخصیت، انسانی شعور اور نفس انسانی کیلئے نفس ہی کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ انسانی شخصیت اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ لاتعداد مخلوقات میں سے ایک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اکثر مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔اختیار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہم اسٹبلشمنٹ کا ذکر کرتے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے لغوی معنی کچھ بھی ہوں لیکن اس کے رائج معنی بااختیار افراد یا گروہ کے ہیں ، جو اپنے مفاد کے لیے متحرک رہتا ہے اس کے لیے حاصل اختیار کا بے دریغ استعمال کرتا ہے ، یہ اداروں، ملک اور دنیا میں من مانی کرتا ہے اس کے لیے ایسے افراد کے گروہ تیار کیے جاتے ہیں جو بظاہر دانشور لیکن درحقیقت بے وقوف ہوتے ہیں ۔اسٹبلشمنٹ کی حکمت عملی شاطرانہ چالوں اور مکاری پر مبنی ہوتی ہے اس لیے وہ جو افراد منتخب کرتی ہے ان سے مفادات اس طرح حاصل کرتی ہے کہ انہیں خود بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے، اس گروہ کو ایسا لگتا ہے کہ یہ مفاد عامہ کا کام کر رہا ہے ،اس طرح یہ گروہ پھلتے پھولتے رہتے ہیں تا وقتیکہ اسٹبلشمنٹ کا مفاد پورا ہوتا رہے ،اس بااختیار گروہ کی ترجیح ہوتی ہے کہ اس پورے گروہ کو ایک شخص یا چند افراد کے ذریعے رابطے میں رکھے اور مز ید لوگ ان کے مرہون منت رہیں، اس گروہ کو بے پناہ مراعات سے نوازا جاتا ہے، یہ گروہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ ان کے حقوق کے حصول کے لیے اسٹبلشمنٹ سے برسرپیکار ہے مگر یہ اپنے سے وابستہ افراد کو فیضیاب کرتا ہے جن کے ذریعے معاشرے میں اپنا دبدبہ قائم کرتا ہے اس طرح یہ گروہ خود کو اشرف المخلوقات سے بھی افضل سمجھنے لگتا ہے ،اس وقت انہیں ا ن کے دماغ کا خناس اسٹبلشمنٹ کے مقا بل لے آتا ہے ،یہ اس وقت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے جب اسٹبلشمنٹ ان کا حساب کتاب کرنے کا تہیہ کر لیتی ہے، اس کے لیے اس گروہ کے زیر اثر یا ا ن کے نزدیکی لوگو ں کا چناؤ کرتی ہے ان کے ذریعے انکی کردار کشی کرواتی ہے تاکہ ان کے پیروکار اس گروہ کے خاتمہ پر مزاحمت نہ کریں بلکہ وہ لوگ خود یہ کہیں کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ تو تھی جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اور ایسا وہی لوگ با آواز بلند کہتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ا ن کے اچھے وقتوں میں ان مراعات اور اختیارات کے مزے اڑا رہے ہوتے ہیں ،جو انہیں اسٹبلشمنٹ سے خدمت کے صلے میں ملتے ہیں۔ اب یہ گروہ براہ راست اسٹبلشمنٹ سے جاہ و جلال ملنے کا خواب دیکھتا ہے اور اپنے پرانے ساتھیوں کی جگہ لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے یہ سب کچھ اس چالاکی سے کیا جاتا ہے کہ وہ غلط لگنے لگتا ہے اور یہ صحیح ہو جاتا ہے کیونکہ یہ سارا کھیل مفادات کا ہے لہذا اس گروہ کے لوگ اپنے مفادات کو جاری و ساری رکھنے کے لیے اس گروہ میں آ جاتے ہیں، وہ لوگ جو اس گروہ سے مفادات کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے ناراض ہو کر الگ ہو گئے تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل جا تے ہیں اور کچھ نئے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں یا شامل کر لیے جاتے ہیں اس طرح یہ گورکھ دھندہ چلتا رہتا ہے ۔
جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا
اس دنیا میں سب سے بڑی دولت روپیہ نہیں، بلکہ ’’اعتبار ‘‘ہے۔ اعتبار کی بنیاد پر آپ اسی طرح کوئی چیز لے سکتے ہیں جس طرح نوٹ کی بنیاد پر کوئی شخص بازار سے سامان خریدتا ہے۔ اعتبار ہر چیز کا بدل ہے مگر اعتبار زبانی دعوؤں سے قائم نہیں ہوتا اور نہ اعتبار ایک دن میں حاصل ہوتا ہے۔ اعتبارقائم ہونے کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ حقیقی عمل ہے۔ خارجی دنیا اس معاملہ میں انتہائی حد تک بے رحم ہے۔ لمبی مدت تک بے داغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے کہ لوگ آپ کے اوپر وہ اعتبار قائم کریں جو اعتبار آپ کو دوسروں کی نظر میں اتنا معتبر کردے کہ آپ کو وہ اپنی سب سے قیمتی متاع بھی سونپ دیں۔محمد ظہیر بدر اپنے ناول”محبتیں ادھوری سی” میں عورت کی زندگی میں اعتبار اور اعتماد کی دولت کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔۔۔”عورت کی یہی ٹریجڈی ہے ، وہ مرد کو اعتبار اور اعتماد کی دولت سے نوازتی رہتی ہے ،مگر اپنے اندر وہ نہایت کمزور اور بے یقین ہوتی ہے ،دراصل عورت کے اندر جو اعتماد ہوتا ہے نا وہ اسے کام میں لانے کا قرینہ نہیں جانتی ،اسی لیئے وہ اپنا سارا اعتماد مرد کو بخش کر اس سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس اعتماد کے سہارے عورت کو تحفظ فراہم کرے”۔
میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اس میں بہت زیادہ اعتماد درکار ہوتا ہے۔ اس رشتے کی عظیم ترین اور پرشکوہ عمارت کھڑی ہی اعتبار کی دولت پر ہوتی ہے۔یہ رشتہ ایسا ہے کہ اگر انسان آنکھیں بند کر کے ایک دوسرے کے ساتھ چلے تو پوری عمر خوشی سے چل سکتا ہے لیکن اگر شک کی دیوار حائل ہو جائے تو پھر ایک قدم بھی آگے بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے، یہ رشتہ اعتبار اور اعتماد کا ہوتا ہے،اگر ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ ایک ایک لمحہ اذیت میں گزرتا ہے۔ خاوند کا اعتبار اور اعتماد ہی عورت کو مضبوط بناتا ہے، ورنہ وہ ٹوٹ کر بری طرح بکھر جاتی ہے اور اسی طرح بیوی کا اعتبار اور اعتماد ہی مرد کو مضبوط بناتا ہے جس سے گھر کی دیگر ذمہ داریوں پربہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہزاروں لوگ اپنے کاروبار زندگی کے سلسلے میں ملک سے باہر یا اپنے ہی ملک میں دور دراز علاقوں میں ملازمت کرتے ہیں ، کئی کئی مہینوں بلکہ کئی کئی سال تک ایک دوسرے سے نہیں مل پاتے، اس کے باوجود ایک اعتبار اور اعتماد ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ دونوں اتنی دوری برداشت کرتے ہیں اور خوشی خوشی ہر تکلیف سہہ لیتے ہیں ۔
اعتماد انسانی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے کیونکہ عدم اعتمادی ہمیں پستی کی طرف گامزن رکھتی ہے اور بلندی کی جانب ہمارے سفر میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔یہی اعتماد ہمیں طاقتور انسان کے مدمقابل سینہ تان کر کھڑے ہونے کی ہمت دیتا ہے اور جب اعتماد متزلزل ہونے لگے تو ہماری ناکامیوں کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اعتماد کیا ہے اور کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟۔۔۔۔۔۔میری ناقص رائے میں اعتماد وہ جذبہ اور ولولہ ہے جو اخلاص، محنت، نیک نیتی اور اللہ تعالی پہ بھرپور ایمان کی بدولت ہمارے اندر اجاگر ہوتا ہے۔ اعتماد طاقت کا ایسا سرچشمہ ہے جو ہمیں بے سروسامانی کے باوجود طاقتور کے مد مقابل جرات عطا کرتا ہے۔اعتبار ایک ایسی انسانی خوبی ہے جس سے باہمی محبتیں پروان چڑھتی ہیں اور ماحول میں ہیجان کی بجائے ٹھہراؤ اور آسودگی در آتی ہے جس کی انسان کو ہمیشہ ہی تلاش رہی ہے یہی وجہ ہے کہ شک کی بجائے اعتبار اور اعتماد کرنے والے لوگوں کو نہ صرف دوسرے لوگ پسند کرتے ہیں بلکہ وہ خود بھی زندگی کی لذتوں سے دل کھول کر لطف اٹھاتے ہیں۔
عشق کو ایک عمر چاہیے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں۔۔!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں