میں قلم اٹھاتاہوں توقلم ساتھ چھوڑ دیتا ہے،میں سوچتاہوں تو خلاؤں میں گھورتا رہتاہوں، بیان کرنے کی کوشش کروں تولفظ ختم ہوجاتے ہیں۔شاید معاشرے کی طرح میری قوت برداشت بھی جواب دے چکی ہے،میرے لفظ بے حسی کا لبادہ اوڑھے کہیں دورجابسے ہیں ۔ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ رونما ہوچکا۔۔ مگر قلم چلنے کا نام نہیں لے رہا۔۔۔۔اور نہ مظالم کا یہ سلسلہ رک رہا ہے۔کہیں مشعال کا بے جان جسم نوحہ کرتے موجود ہے تو کہیں اس کی لاش پے گریہ کرتی اینٹیں اور گملے کہ ہمیں اس گناہ میں شامل کرنے سے باز رہو۔کہیں فضا میں آہ وپکار کرتے اس کے سوال جو آج بھی سینکڑوں ذہنوں میں شور برپا کیے ہوئے ہیں ۔۔۔مگر خبردار ہمت نہ کرنا، سوال نہ کرنا۔۔۔یہ معاشرہ برداشت کی طاقت نہیں رکھتا،یہ فقط اپنی عدالت لگاکے سزادینا جانتا ہے۔اب مائیں جوگھر سے دور بچوں سے فون پہ طبیعت اورکھانے کا پوچھتی تھیں اب وہ التجا کرتیں ہیں۔۔۔دیکھو بیٹا سوال نہ کرنا، لوگوں سے باتوں میں نہ الجھنا۔۔۔جوکہہ دے مان لینا۔۔اپنی سوچ کو بیان نہ کرنا۔ہم میں ہمت نہیں کہ جواں بیٹوں کی برہنہ لاشیں دیکھ سکیں۔انتہایہ ہے کہ جو شدت پسندی جس کا شکار چند مخصوص ذہن تھے۔۔ آج وہ ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں اورمعاشرے کا نصاب بن چکی ہے۔جس کی ہم جڑیں کاٹنے کا فقط سوچ رہے تھے ۔ شدت پسندی کا وہ تناور درخت اپنی پیداوار شروع کرچکا ہے۔
کہیں نورین لغاری کی صورت جوکہ حیدرآباد میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کی طالبہ ہے۔یا سعید عزیر جو IBA کاگریجویٹ ہے، 43انسانوں کواپنی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھا چکا ہے یا مردان یونیورسٹی کے پڑھے لکھے طالبعلموں کے ہاتھوں اپنے جیسے کا دردناک قتل۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں برداشت کامادہ سِرے سے ناپید ہو چکا ہے، ہرفرد جودوسرے سے فکری، علمی، یا فقہی اختلاف کرتاہے۔۔ اسے سرِبازارٹکادینا چاہتاہے۔وہ یہ سوچتا ہے کہ اس کایہ فعل اسکی خودساختہ سوچ کے حق میں ہے مگر قانون اورمعاشرے کے خلاف ہے۔پھرچاہے تواس کے ہاتھ چترال کا ذہنی مریض آجائے،جو اپنی خراب ذہنی حالت کی بناپرقطرسے بے دخل کردیا جائے اورمسجد میں ایک باطل دعویٰ کرے اور وہاں لوگ انصاف کی عدالت لگانا چاہیں۔یہ دیکھے بغیرکہ وہ شیزوفرینیا کا مریض ہے اور کوئی خطیب ہمت کرکے اسے قانون کے حوالے کردے توایک کہرام برپا ہوجائے لوگ تھانے کا محاصرہ کرلیں۔خطیب کی گاڑی جلا دیں اور ایک انسان کوبچانے والا ہزاروں سے اپنی جان بچانے کے لئے چھپتا پھرے۔عدم برداشت کے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نصاب ، ہماری سوچ ، ہماری پسماندہ سوچ کی تبدیلی۔۔۔اورسب سے بڑھ کر اس طبقے کی سوچ جو سوال کرنے کی اہمیت کو جانتاہے مگر اس کو برداشت کرنے یا جواب دینے کی ہمت نہیں رکھتا۔منٹو نے اسی معاشرے اوراسی سوچ کو چولی پہنانے سے انکار کیاتھا کہ یہ اس کا کام نہیں درزی کا کام ہے۔شاید وہ اس معاشرے کی رہی سہی عزت برقرار رکھنا چاہتاتھا۔کیونکہ اگروہ اس معاشرے کوچولی پہنابھی دیتا تویہ اسے تارتارکرکے دیوانہ وار کوچہ کوچہ قریہ قریہ برہنہ رقص کرتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں