یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ مذہبی و فرقہ وارانہ تنظیمیں ہوں یا مذہبی جماعتیں یا پھر دہشت گرد لشکر، یہ سب محنت کشوں سے روا رکھے جانے والے وحشیانہ سلوک پر ہمیشہ خاموش رہے ہیں ۔ ان کے مل مالکان سے ظاہراور کبھی باطن خصوصی مراسم رہے ہیں اور ا ن کی نمود میں مل مالکان کے روپے پیسے نے کلیدی کرادر اد کیا ۔ہمیں معلوم ہے کہ ایک بڑے جید مبلغ جن کی تقاریرپر مبنی آڈیو کیسٹس یہ صنعت کار مفت تقسیم کراتے ہیں ۔یہ مبلغ مذہبی تبلیغ کے ذریعے عام انسانوں کو ریاکاری، بد دیانتی اور برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے مگر سیاست کے پلے بوئے کے ساتھ ڈنر کرتا ہے اور غیر ملک کرنسی کے ڈان کے گھر پر رمضان میں تراویح پڑھانے کو افضل ترین تصور کرتا ہے ۔یہ اپنے نام کے اعتبار سے صبح کا ستارہ یعنی طارق اور حسین وجمیل ہے لیکن اس کے منہ سے کبھی مزدور طبقے کے ذلت میں ڈوبے شب وروز کے ذمہ دار سرمایہ داروں کے منافقانہ استحصالی کردار پر ایک لفظ بھی سننے کو نہیں ملے گا۔ جب کہ یہی صورتحال آپ کو مدینہ جیسے مقدس نام پر چلنے والے فرقہ وارانہ ٹی وی چینل پر نظر آئے گی جو سرمایہ داروں کے چندے پر چل رہا ہے جہاں مفتی حضرات ہر مسئلے پر سیر حاصل گفتگو کرتے نظر آئیں گے مگر فیکٹریوں کارخانوں میں جل مرنے والے مزدوروں اور ان سے روا رکھنے جانے والے اذیت ناک سلوک پر بات کرتے ان کی زبان میں چھالے پڑ جاتے ہیں ۔
پچھلے کچھ عرصے ہم نے تواتر کے ساتھ ایک ایسا مذہبی مبلغ بھی دیکھا جو کہ ماضی کا معروف ’’پاپ سنگر‘‘ تھا وہ نہایت دھیمے لہجے میں سماج میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، دین سے دوری پر لمبے لیکچر دیتا نظر آتاتھا وہ خود ملبوسات کے ایک برانڈ کا مالک ہے جس کی ملک میں خوب جے جے کار ہے۔ جہاں یہ ملبوسات تیار ہوتے ہیں وہاں محنت کش لیبر قوانین کے تحت حاصل بنیادی حق یعنی یونین سازی ، کم از کم تنخواہ ، سوشل سیکورٹی وغیرہ سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ ایسا سوچنے پر ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ یہ ایرانی ، عربی آمیزش زدہ نام والا شخص جو مغرب کی برائیاں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا وہ برا وقت پڑنے پر جان بچانے کے لیے سعودی عرب جانے کی بجائے انگلستان میں پناہ لیتا ہے۔
سرمایہ داری کی کوئی اخلاقیات اور مذہب نہیں ہوتا اس کا مذہب اور اخلاقیات صرف اور صرف منافع اور مزدوروں کی محنت کی لوٹ ہے۔اپنی لوٹ مار اور استحصال کو چھپانے ، منافع کے لیے مارا ماری اور محنت کشوں کے غیض وغضب سے بچنے کے لیے مذہب اور عقائد کو صرف مقامی سرمایہ دار ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی مذہبی عقائد کی آڑ میں دونوں ہاتھوں سے منافع بٹور رہی ہیں ۔ کوکا کولا ،پیپسی ، میکڈونلڈ، نیسلے، اولپر، ٹیلی نار ، موبی لنک ،زونگ کے ہمارے مذہبی تہواروں ، عیدین ، رمضان اور حج کے مہینوں میں جاری ہونے والے اشتہارات ان کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہ اور ان جیسے ادارے کرسمس ، ہولی ،دیوالی جیسے مذہبی تہواروں کے موقع پر بھی عقائد کی آڑ میں اپنی مصنوعات بیچتے بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس سارے گورکھ دھندے میں دکھائی دیتا ہے کہ مشین کی مسلسل ترقی جو کہ انسان کو مشقت اور محنت سے قدرے آزادی دلانے کا موجب بن سکتی تھی اس نے مشینوں کے تخلیق کار یعنی محنت کش انسان کو مزید غلام اور زیادہ مشقت کی جانب دھکیل دیا ہے ۔مشینوں کی آماجگاہ یعنی فیکٹریاں جہاں اربوں محنت کش روزانہ کھربوں کی پیداوار کرتے ہیں لیکن دنیا میں بھوک ،افلاس بیماری ،بے روزگاری ،قتل وغارت اور جنگوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
دنیا بھر کی طرح ہمارے سماج میں بھی کروڑوں انسانوں کی محنت سے فیکٹریوں ، کارخانوں کی تعداد اور امارات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،پیداوار میں بے تحاشا اضافے کے لیے جدید سے جدید مشین آ رہی ہے لیکن محنت کشوں کے اوقات کار میں کوئی کمی واقع نہیں پورہی۔ محنت کرنے والے انسان اکیسویں صدی میں بھی بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ جہاں سماج میں مالداروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہاں مذہب اور عقائد کے مبلغین کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے ،فرقہ وارانہ نفرتیں عروج پر ہیں ، لشکر اور مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں ، ذرائع ابلاغ ایسے گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ان کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں اور محنت کشوں کی آواز کہیں بھی جگہ پانے میں ناکام ہو چکی ہے ۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ محنت کش انسان خود اپنی پہچان سے محروم کر دیا گیا ہے اور اپنے نئے اور ترقی پسند خیالات کی بنیاد پر سماج میں اپنا وجود ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔مزدور کو اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ مشین یعنی آلات پیداوار کی تخلیق اور پھر اس پر پیداواری عمل اشتراکی یعنی مشترکہ ہوتا ہے لیکن مشین کی ملکیت انفرادی یعنی نجی ہونے کی وجہ سے اس کی پیداوار سے حاصل کی گئی دولت انفرادی ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اور محنت کرنے والا اپنے حق سے محروم ہوجاتا ہے جب کہ مشترکہ محنت کی بنیادپر حاصل ہونے والی دولت انفرادی ہاتھوں میں آنے سے ایسی دولت سے سرمایہ دار مزید مشین حاصل کرتا ہے اور مزید دولت کماتا ہے ۔یعنی یہ شیطانی چکر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔
اسی شیطانی چکر کو قائم رکھنے اور اس کا تقدس بحال رکھنے کے لیے سرمایہ دار اور اس کے حواری عقائد اور مذہب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔سرمایہ دار محنت کش کو جدید مشین کے استعمال کے بارے میں جانکاری دینے میں نہایت تیزی دکھاتا ہے لیکن اس جدید مشین کے ساتھ جدید اور نئے خیالات کو روکنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور بھی لگاتا ہے اور عقائد کی آڑ میں مزدور طبقے کی انقلابی طبقاتی پہچان یعنی ’’ مزدور‘‘ ہونے کو دھندلا کر کے اسے مذہب ، فرقے میں تقسیم کر دیاتا ہے ۔ مزدور طبقے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا تاریخی وانقلابی فریضے کا ادراک کرتے ہوئے جہاں جدید مشین کے رموز جان جاتا ہے وہاں اس کے ساتھ آنے والے نئے خیالات کو بھی اپنانے کی شعوری کوشش کرے اور ہر اس خیال اور سوچ کو رد کرے جو اس کے مزدودر تشخص کو دھندلا دے۔ مزودر ہونے کا شعوری احساس ہی وہ دو دھاری تلوار ہے جس سے سرمائے کے جبر کو کاٹا اور تقسیم کرنے والے نظریات کو شکست دی جا سکتی ہے۔ سرمایہ دارکی کوشش یہی رہتی ہے کہ مزودر طبقے کے اسی ہتھیار کو کند کرکے رکھ دے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں