چلے تھے دیوسائی۔۔۔جاوید خان

رَامہ میدان:
ہماری گاڑیاں خُوبصورَت ڈاک بنگلوں کے سامنے جارُکیں۔بائیں طرف ڈاک بنگلے ایک چبوترا نما جگہ پر ایک دوسرے کے پہلو میں ہیں۔ دائیں طرف ایک بڑا مُستطیل میدان ہے۔اِس کے چاروں طرف بیاڑ کے درخت، ایک فصیل کی شکل میں کھڑے ہیں۔جیسے خاص طور سے ِاس کی حدود کا تعین کر رہے ہوں اَور پہرہ دے رہے ہوں۔ہم نے گاڑیوں سے اُوڑھنیاں نکال کر لِپیٹیں اور میدان میں آگئے۔
کُچھ نوجوان فُٹ بال کھیل رہے تھے۔گائے اور بھیڑیں ایک طرف اِس میں چر رہی تھیں۔ ایک نوخیز لڑکی چند بچوں کے ساتھ اِس میں گھوم پھر رہی تھی۔ڈاک بنگلوں پہ دیودار کی لکڑی کا خُوبصورَت کام کیا گیا ہے۔سُورج مغرب میں ڈُوب جانے کو تھا۔میدان میں ایک آب ِجُو،میدان کے بیچوں بیچ بہہ رہی تھی۔ہم نے جوتے اُتارے اور اِس کے کنارے بیٹھ کر وُضو کرنے لگے۔پانی یخ ٹھنڈا تھا۔وضو کیا،گھاس کے میدان میں چادریں بِچھائیں اور نماز ادا کی۔نماز اَدا کرچکے تو ایک مسافر نے گُزرتے ہوئے اِشارہ کیا کہ کعبہ اُس طرف ہے۔ہم نے ڈاک بنگلوں سے ذرا ترچھا رُخ لے کر نماز اِداء کی تھی۔جب کہ  کعبہ تقریباً اُس طرف تھا جِس طرف سے آئے تھے۔
میدان کے عقب میں ایک خُوبصورَت چوٹی کامنظر تھا۔جیسے کِسی نے نیلے سبز قالین پہ مکھن کی سفید ڈِلی رَکھ دی ہو۔یہ نانگا پربت کی پُشت تھی۔جبکہ پڑاؤ (بیس کیمپ) دُوسری طرف تھا۔خُوبصورَت مُتناسب نانگا پربت آنکھوں کے سامنے خاموش کھڑی تھی۔ٹھنڈے پانی کی آب ِجُو،جو رامہ میدان کے بیچوں بیچ بہہ رہی تھی۔اس کا پانی نانگا سے پھوٹ کر آرہا تھا۔

رَام سنگھ کا را مہ نگر:
کہتے ہیں بھلے وقتوں میں  کوئی رام سنگھ ہوتے تھے۔اَور اِس وادی پہ اُن کی دَسترس تھی۔اُن کے نام پہ اِس وادی کا نام رامہ پڑ گیا۔وہ اپنے خاندا ن کے سربراہ تھے۔اُن کی آگے اَولادیں ہوئیں،پوتے،پڑپوتے ہوئے۔دادا کے نام پہ یہ وادی ہوتے ہوتے رام نگر اور پھر رامہ ہوگئی۔رامہ کی ہل (میدان) رامہ نگر،رام آباد،دادوں،پڑدادوں کے نام پہ جگہوں کے نام رکھنا پہاڑی علاقوں میں عام رواج رہا ہے۔رام سنگھ جی سے قبل اِس وادی کامالک کون تھا۔؟اور آج کون ہے؟کل کون ہو گا؟ کیا رامہ کی یہ خُوبصورَت وادی کل کسی اور دادے کا نام بھی اپنا سکتی ہے؟
رامہ میدان کے ساتھ پولو میدان ہے۔جہاں پولو کے میچ ہوتے ہیں۔اَبھی یہ سُنسان پڑا ہے مگر جب پولو کے میچ ہوں گے تو سارا گلگت اور اَستور اُمنڈ آئے گا۔نانگا پربت کے دامن میں سِدھائے ہوئے گھوڑوں کی پُشت پہ ماہرگُھڑ سوار اَور ماہر کھلاڑی، ایک دوسرے سے گیند چھیننے کے لیے زور آزمائی کریں گے۔یہ صرف زور آزمائی ہی نہیں ہو گی بلکہ دماغی صلاحیتوں،اعتماد،مناسب موقع پر مناسب فیصلہ لمحوں میں کرنے کا امتحان بھی ہوگا۔اِن صلاحیتوں کے جوہر دِکھانے والے کو عوام دِل کھول کر داد دیتے ہیں۔پولو میں صرف اَپنی صلاحیتوں کو ہی ثابت نہیں کرنا ہوتا بلکہ اپنے گھوڑے سے مدمخالف کے تاک گھوڑے کو ذرا سے اشارے پر نیچا دِکھانا ہوتاہے۔پولو صدیوں پہلے کی ایجاد ہے۔اِس کا مقصد ماہر اور چُست گھُڑ سوار،اَور گھوڑے تیار کرنا تھا۔تاکہ جنگوں میں بہتر کاردگردگی دِکھائی جاسکے۔پولو ایک جفاکش اور تجسس بھرا کھیل ہے۔

روشن ڈاک بنگلے اور جنگل میں منگل:
چبوترے پر تین ڈاک بنگلے،جن پر لکڑی کا کام ہوا ہے۔روشن ہو گئے تھے۔بیاڑکے جنگل میں کمروں اَور صحن کی روشنیاں رات میں بھلی لگ رہی تھیں۔اِن کی شعاعیں بیاڑ کی سلاخوں پرپڑ رہی تھیں۔کہیں تاریکی اَور کہیں پہ مصنوعی روشنیاں چھن چھناتی سلاخوں کے بیچ سے گُزر کر پھیل گئیں تھیں۔دُوسری طرف خیمہ بستیوں کے جنریٹر گُڑگڑانے لگے۔درختوں کے نیچے لگے خیمے آباد ہو گئے تھے۔ہر خیمہ تیل کی بجلی سے روشن تھا۔جنگل میں منگل کے اِس ماحول میں اگر کوئی خلل تھا تو تیل پہ چلنے والے اِس آلے کی آواز جو پورے جنگل کی خاموش رات کا سکون غارت کررہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔ ۔۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply