زمانہ اورحالات کے بدلنے کے ساتھ انسان کی دوستی اور تعلق کا دائرہ وسیع ہو ا ہے۔ پہلے یہ دوستی ایک محلے ، علاقے تک محدود ہوتی تھی، نوجوانوں کی شناسائی اور تعارف فقط محلے تک محدود ہوتاتھا ،وہ آپس میں کسی پارک ، باغ اورریسٹورنٹ میں گپ شپ کر لیتے تھے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ شناسائی اوردوستی علاقائی نہیں رہی بلکہ بین الاقوامی ہوچکی ہے۔ اب دوستی ک یکوئی سرحد نہیں رہی۔ ایک شخص پاکستان میں ہے، وہ امریکہ ویورپ میں موجود شخص کو Friend Requestبھیج سکتا ہے ، دوسرا مناسب سمجھتا ہے تو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے ورنہ نہیں ۔ اس کے نقصانات بھی ہیں اورفوائد بھی…. فائدہ یہ ہے کہ انسان انسان کے قریب ہواہے تہذیب وتمدن کابُعد ختم ہنول ہے، مختلف خطوں کے انسانوں کو ایک دوسرے کی تہذیب ، رہن سہن ،سوچ اور کلچر کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ اس قربت سے لوگوں کا Exposureبڑھاہے۔ اس سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ہے۔ پاکستان میں موجود نوجوان یا مغرب میں ایک دوسرے کے متعلق خیال جن Misconception کا شکار تھا، ایک دوسرے سے مکالمہ وکلام سے معلوم ہوا کہ جو سمجھا اورخیال کیا گیا ان میں بہت سے خیالات درست نہیں تھے۔ نقصان یہ ہوا کہ جہاں ان دوستیوں اور تعلقات میں مقصد یت و علمیت ہے وہاں ان سے بے راہ روی اور جہالت بھی نوجوان نسل میں عام ہو ئی ہے۔
سوشل میڈیا نے جہاں نوجوان نسل کو شعور دیا ہے ،وہاں ذہنی آوارگی کا رسیا بھی بنا ڈالا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انِ ذرائع کی افادیت ومفاد کے پیش نظران پہ مکمل پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن ضابطہ بنا یا جا سکتا ہے کہ جو افراد اس سے استفادہ کریں تو وہ اس ضابطہ کو پیش نظررکھیں۔ میرے خیال کے مطابق اس حوالے سے دو کام بہت اہم ہیں ایک کام مستقل حل ہے اور دوسرا عارضی ۔ مستقل حل وہ تعلیم و تربیت ہے جو نوجوانوں کو گھر ، تعلیمی ادارے اورمساجد میں دی جاتی ہے وہ تعلیم و تربیت اسے ایسے لوگوں کی دوستی اورتعلق سے بچاتی ہے جو بے راہ روی اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اگر نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام ہو، اور ان کی ذہن سازی کر دی جائے تونوجوان طبقہ جدید ٹیکنالوجی کو مثبت اور بامقصد طریقے سے استعمال کرے گا ۔ یا د رکھیئے، تعلیم و تربیت کے سوا اس بے راہ روی اور گمراہی کا کوئی حل نہیں ہے۔ مذہب کی تعلیم انسان میں اعلیٰ صفات پیدا کرتی ہے۔ سبحان اللہ، اگر انسان کو اساتذہ صالح اورباکردار نصیب ہو جائیں تو ان کے زیر سایہ تعلیم و تربیت پانے والا بھی باکردار اور صالح انسان بنتا ہے۔
اس کا عارضی حل یہ ہے کہ جب تک اولاد ،والدین کے زیر سرپرستی ہے ، اس وقت تک والدین سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنے بچوں پہ کڑی اور گہری نظر رکھیں لیکن یہ عارضی حل ہے اورمستقل حل یہی ہے جو میں نے عرض کیا کہ تعلیمی ادارے، مساجد اورگھر کا ماحول مل کرنوجوان نسل کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ایسے انسان تیار ہوں جن میں اعلیٰ اخلاق واوصاف پیدا ہوں۔مذہب نے اس حوالے سے بہت اعلی تعلیم مہیا کی ہے۔ سب سے پہلے ذاتِ الہیٰ کا تصور ہے جو انسان کے عمل ،ادارے اورسوچ کا نگران ہے۔ انسان خواہ خلوت میں ہو یا جلوت میں اسے تنہائی نصیب ہو یا محفل ،رب تعالیٰ کی ذات ہر مقام پر موجود ہے۔ یہ تصور اسے ہر نافرمان سے محفوظ رکھتا ہے۔ مذہب کا دوسرا تصور آخرت کا ہے ۔ آخرت سے احتساب اورجزاو سزا کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ انسان جو بھی عمل کرے گا وہ اچھا ہو یا برا آخرت میں وہ اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہے۔ اسے اچھے عمل پہ جزاءاور برے عمل پہ سزاملے گی ۔ ایسے ہی مذہب باہمی تعلقات میں انسانوں سے عدل کا تقاضا کرتا ہے اور اس تعلق کی بنیاد تقویٰ پہ رکھتا ہے۔
اگرانسان دنیا میں اچھے لوگوں سے تعلقات قائم کرتا اور ان کے ساتھ تدبرو تقویٰ میں تعاون کرتا ہے تو یہ دوستی اور تعلق فقط دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی قائم رہے گی۔ سورة الذخرف میں ہے کہ “قیامت کے روز دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو نگے، سوائے متقین کے “ ان کی دشمنی کی وجہ بد اعمالیاں ہوں گی ، وہ ایک دوسرے پہ الزام دیں گے کہ دنیا میں انہوں نے گمراہ کیا۔ آخرت کا معاملہ دنیا سے مختلف دیکھ کر اپنی ہلاکت و ناکامی کا الزام ایک دوسرے پہ دھریں گے جبکہ متقین قیامت کے روز بھی ایک دوسرے کے دوست ہوں گے ان کی دوستی کی وجہ تقویٰ ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ دو دوست جب امتحان میں ناکام ہوتے ہیں تو ناکامی کا الزام ایک دوسرے پہ لگاتے ہیں جب کہ کامیابی کی صورت میں ان کی دوستی اور زیادہ مضبوط ہوتی ہے ایسے دوست جو گمراہ کرتے اور جرم پہ اکساتے ہیں اور جرم کرتے ہوئے پکڑے جانے کی صورت میں انجا ن اور اجنبی بن جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے انہیں ”خناس“ کہا ہے۔ شیطان کا بھی قیامت کے دن یہ ہی کہنا ہو گا کہ میں نے زبردستی تم سے گناہ نہیں کروائے تھے، تم نے گناہ اپنے ارادے اور مرضی سے کیئے تھے۔قرآن مجیدنے مومن مرد اور مومن عورتوں کوایک دوسرے کا مددگار اور دوست قرار دیا ہے اور ان کی اس دوستی کا اظہار امر بالمعروف ونہی عن المنکر اقامت ِالصلوة ایتاءالزکوة ، اطاعت اللہ ورسول کی ادائیگی سے ہوتا ہے جب کہ منافقین کاکردار برعکس ہوتا ہے۔
وہ برائی کی تلقین کرتے، نیکی سے منع کرتے ہیں۔ انفاق کی تعلیم نہیں دیتے، اپنے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں اللہ کو بھلا چکے ہوتے ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص کسی سے دوستی قائم کرتا ہے۔ اسے کم ازکم اس معیار کو مدنظر رکھناچاہئے کہ وہ اسے اچھے کاموں کے بجائے کہیں برے کاموں کی طرف راغب تو نہیں کر رہا ہے۔ وہ میری ذات میں بری صفات پیدا کرنے کا ذریعہ تو نہیں ہے اس کی دوستی مجھے میری تعلیم اور مقاصد زندگی سے غافل تو نہیں کررہی۔ دوست وہ نہیں ہوتا جو آپ کو ضائع کردے بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کو اور آپ کی زندگی کو کامیابیوں کی طرف لے کر جائے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پہ دولوگوں یا دو گروہوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک وہ جو گمراہ ہونے والا ہے اوردوسرا وہ جوگمراہ کرنےوالا ۔ قیامت کے روز ان دونوں سے رعایت و نرمی نہیں برتی جائے گی۔ گمراہ ہونے والے کو اس لئے سزا ملے گی کہ اللہ نے اسے عقل وشعور کی نعمت سے نواز ا تھا کہ وہ اس کے حملوں سے بچ سکتا تھا۔ انبیاءعلیہ السلام اور کتب سماویہ انہی مقاصدکے تحت بھیجی گئی تھیں ۔ وہ اللہ کی کتاب ہدایت سے روشنی پا کر گمراہ کرنے والے کی گمراہی سے بچ سکتا تھا لیکن وہ نہ بچا۔ گمراہ کرنے والے کو بھی سزا ملے گی کیونکہ گمراہی میں اصل کردار اسی کا تھا۔
بزرگ فرماتے ہیں جو جھوٹا ہو ،جو تمہیں تمہاری ذمہ داریوں سے غافل کرے، تمہیں تمہارے دین سے دور کر دے، اخلاق کی خرابی کا ذریعہ بنے، ایسے شخص کو دوست نہ بناؤ……..نوجوان نسل کی راہنمائی کے لئے یہ تحریرٍ قلمبند کی ہے کہ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے نوجوان نسل کی دو ستیاں بین الاقوامی ہو گئی ہیں۔ ان دوستیوں اورتعلقات میں ہماری حدود کیا ہیں انہیں جاننا اورسمجھنا بہت ضروری ہے اگر ہم نے اپنی حدود کا خیال نہ کیا تو دنیا میں وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا، او ر آخرت کا نقصان بھی یقینی ہے اور وہ دنیا کے نقصان سے کہیں زیادہ بڑا اورخوفناک ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں