شہرت کا بخار اور تجربہء فیسبک۔۔۔۔عبدالرحمن قدیر

آج کل فیس بک پر چلے جائیں تو نظر آتا ہے کہ ہر نفس پر بخارِ دانشوری سوار ہے جو اکثر بخارِ شہرت کو جنم دیتا ہے۔ اور بالکل اسی طرح اگر لفظ “دانشوری” اور “شہرت” کی جگہ ایک دوسرے سے بدل دی جائے تو بھی بات مستند ہی رہے گی۔ مگر سوال یہ ہے، کہ یہ جو ہم سب یہاں مشہور ہیں، کیا واقعی مشہورہیں؟

دانش اور فلسفہ چھوڑیے، یہ ہم سے اوپر کے درجے کی باتیں ہیں۔ فیسبک کے انتہائی سادہ اور عام ضوابط کی بات کرتے ہیں۔

اب جو بندہ یہاں اپنے خیالات کا اظہار کرنے آتا ہے اسکی کوشش یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ فرینڈز ایڈ کرے۔ حتیٰ کہ بات پانچ ہزار تک پہنچتی ہے۔ جب پانچ ہزار فرینڈز ہوں تو تقریباً شروع میں کم سے کم بھی دو سو لوگ تو پوسٹ کو دیکھیں گے۔ جن میں سے کوئی بیس تیس بغیر دیکھے ہی لائک کر دیں گے۔ اکثر اس خواہش میں کہ انہیں بھی واپس لائیکس ملیں گے۔

اب جیسے تیس لائکس ہونگے تو یہ ان لوگوں سے زیادہ ہی ہونگے جن لوگوں کے پانچ سو کے قریب دوست ہیں۔ اس طرح فیسبک کا الگورتھم آٹومیٹکلی جو پوسٹ دوسو لوگوں تک پہنچی اسے چار سو تک پہنچائے گا اور اسی طرح لائیکس بھی بڑھتے جائیں گے اور پوسٹ دیکھنے والے بھی۔ اور بنا دیکھے لائک کرنے والے بھی۔ اور اکثر تین سو پر جا کر بریک لگ جاتی ہے اور اس سے زیادہ لائکس بہت کم لوگوں کو ملتے ہیں۔ ہاں پروفائل پکچر کی اپڈیٹ کو الگورتھم سب سے اوپر دکھاتا ہے اور اس پر لائکس قدرے زیادہ ملتے ہیں۔

رہی کمنٹس کی بات تو کمنٹ لوگ اسی کی پوسٹ پر کرتے ہیں جو انکی پوسٹ پر کرے۔ کیوں کہ انہیں پتہ ہوتا ہے اگر کمنٹ نا کیا تو آگے سے بھی آنا بند ہو جائیں گے۔ اور خاص طور پر ایڈ بھی انہیں ہی کیا جاتا ہے جو اکثر لوگوں کے کمنٹس میں نظر آئیں۔ اور آپ جس سائز کا کمنٹ کریں گے اسی سائز میں کمنٹ واپس بھی آئے گا۔

ہاں ان اصولوں سے دو لوگ باہر ہوتے ہیں، غیر اخلاقی  پوسٹس کرنے والوں کے ہاں ہجوم رہتا ہے کیونکہ بلا شبہ ہم انتہائی ترسی قوم کا حصہ ہیں۔ برصغیریوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔
دوسرا وہ طبقہ ہے جو ایک خاص فرقے، طبقے یا سیاسی پارٹی کے بیری ہوں، انکی بات اس خاص فرقے کے مخالفین کے دل کو لگے گی اور بے تحاشا پاپولیرٹی بھی ملے گی۔ آخر ہمیں سب سے زیادہ محبت مخالفت سے ہی تو ہے۔

ہاں کچھ دوست ہوتے ہیں ایسے، جو آپکی باتیں پڑھتے تو ہیں، مگر ان میں سے کچھ تو نہ لائک کرتے ہیں نہ کمنٹ۔ کچھ منہ پر تعریف نہیں کرتے کہ آپ بگڑ نہ جائیں۔ اور کچھ تعریف پر نہیں بلکہ صرف تنقید پر یقین رکھتے ہیں۔ اور کچھ آپ سے اختلاف رکھتے ہیں اسی لیے دور رہتے ہیں دوستی متاثر نہ ہو۔ لہٰذا ان سے تو پاپولیریٹی کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے انسانیت کے ٹھیکیداروں سے انسانیت کی، نمرہ احمد سے حقیقت پسندی کی، پرانے سیاستدانوں سے ایمانداری کی، اور نئے سیاستدانوں سے تبدیلی کی امید رکھنا۔

julia rana solicitors london

تو ہم میں سے یہاں کوئی بھی سیلبریٹی نہیں ہے۔ بس ہم ذرا سنجیدہ انداز میں لائک فار لائک، کمنٹ فار کمنٹ اور شیئر فار شیئر والی گیم کھیل رہے ہیں۔

Facebook Comments

عبدالرحمن قدیر
ایک خلائی لکھاری جس کی مصروفیات میں بلاوجہ سیارہ زمین کے چکر لگانا، بے معنی چیزیں اکٹھی کرنا، اور خاص طور پر وقت ضائع کرنا شامل ہے۔ اور کبھی فرصت کے لمحات میں لکھنا، پڑھنا اور تصویروگرافی بھی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply