کل سے ن لیگ کے چند مہذب اور محبتی دوست اور متعدد بد زبان پٹواریوں کے علاوہ بعض خود ساختہ دانشور بھی ایک ہی بات کو ڈھال بنا کر بیٹھے ہیں کہ میاں صاحب نے اس تازہ بیان میں ایسی کون سی بات کر دی ہے جو اس سے قبل متعدد پاکستانیوں نے نہیں کہی؟
سننے میں یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے لیکن معذرت کے ساتھ، جن لوگوں نے لکھنا پڑھنا فیس بک کے ساتھ سیکھا ہے اور انہیں زبان کے استعمال پر دسترس حاصل نہیں، وہ ایک کہنہ مشق صحافی یعنی سیرل المیڈا کے الفاظ میں چھپے ڈائنامیٹ سے آگاہ نہیں اور جو آگاہ ہیں، وہ سوچ سمجھ کر بد دیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ بھارت سمیت پوری دنیا میں جو بھی اور جہاں بھی پاکستان کا مخالف ہے، وہ ان الفاظ کو انہی معنوں میں اور انہی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا جس کے لیے یہ الفاظ کہے گئے ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ الفاظ پڑھ لیجیے جو ڈان میں چھپے انٹرویو سے لیے گئے ہیں۔۔۔ نہ کہ کسی بھارتی چینل سے:
سیرل المیڈا کے مطابق نواز شریف سے ان کے خیال کے مطابق اقتدار سے رخصتی کی اصل وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے براہ راست جواب دینے کی بجائے بات کا رخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی جانب موڑا اور کہا :
“ہم (مملکت پاکستان) نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ قربانیاں دینے کے باوجود ہمارا موقف دنیا میں رد کیا جاتا ہے اور افغانستان کے موقف کو پذیرائی ملتی ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
ملک میں عسکری تنظیمیں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیجیے لیکن کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟ مجھے بتائیے کہ ہم ان کے خلاف ٹرائل مکمل کیوں نہیں کر سکتے۔ (اشارہ راولپنڈی میں ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کے خلاف مقدمے کی جانب ہے جو ابھی التوا میں ہے)
یہ معاملہ ہمارے لیے قطعی ناقابل قبول ہے۔ اسی کے خلاف تو ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر پیوٹن نے یہی کہا تھا، صدر شی جن پنگ نے یہی کہا تھا۔ ہماری جی ڈی پی شرح نمو 7 فیصد ہو سکتی تھی جو نہیں ہوسکی۔”
اب ان الفاظ کے دفاع میں ن لیگی دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ تو پہلے بھی بہت سے لوگ کہہ چکے ہیں ۔۔۔۔۔ نہیں حضور! بات اس قدر سادہ نہیں ہے ۔۔۔۔
آپ کی تسلی کے لیے اس پیراگراف کی باتوں کو الگ الگ کر کے دیکھتے ہیں۔
1۔ ہم (پاکستان) نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔
پہلی بات ہی لغو ہے ۔۔۔۔ اگر ہم (خارجہ محاذ پر) تنہا ہیں تو چین سی پیک کا منصوبہ کس کے ساتھ بنا رہا ہے؟ ترکی کے ساتھ درجنوں معاہدے کس کے ہیں؟ ایران اور سعودی عرب اپنی باہمی مخاصمت کے باوجود کس کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں؟ چلیے مان لیجیے کہ ہم تنہا ہیں اور اسی باعث ایف اے ٹی ایف نے ہمیں گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے تو یہ ارشاد فرمائیے کہ اس بیان کے بعد ایف اے ٹی ایف میں ہماری پوزیشن خراب ہو گی یا نہیں؟
2۔ ہمارا موقف دنیا میں رد کیا جاتا ہے اور افغانستان کے موقف کو پذیرائی ملتی ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
گویا پاکستان کا سابق وزیراعظم دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ پر اس کا کنٹرول نہیں۔ واقعی یہ بات نئی نہیں۔ اس سے پہلے یہ بات 1999 میں “روگ آرمی” والے اشتہاروں میں بھی کہی جا چکی ہے۔
3۔ ملک میں عسکری تنظیمیں متحرک ہیں، آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیجیے ۔۔۔
جی بالکل ۔۔۔۔ ملک میں عسکری تنظیمیں متحرک ہیں لیکن ریاست پاکستان انہی کے خلاف تو کارروائی کر رہی ہے ۔۔۔۔ اور یہ کیا بات ہوئی کہ آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ لیجیے ۔۔۔۔ حضور یہ غیر ریاستی عناصر ہی ہیں لیکن آپ جس مرے مرے لہجے میں انہیں غیر ریاستی عناصر کہہ رہے، وہ تو شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ ریاست پاکستان ان تنظیموں کو غیر ریاستی عناصر کہتی ہے تو بحیثیت سابق وزیر اعظم آپ کو بھی انہیں غیر ریاستی عناصر ہی کہنا پڑے گا۔
4۔ لیکن کیا ہمیں ان کو اجازت دینی چاہیے کہ یہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو ہلاک کر دیں؟
کیا مطلب؟ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے جن لوگوں نے ممبئی جا کر حملے کیے تھے، وہ یہاں سے اجازت لے کر گئے تھے؟ یا اب کچھ لوگ جا کر ایسے حملے کرنے کے لیے کسی کی اجازت کا انتظار کر رہے ہیں؟ حضور ۔۔۔۔ ریاست پاکستان کا موقف یہ ہے کہ ممبئی حملے کرنے والے پاکستانی ضرور تھے لیکن ان کی کارروائی کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ غیر ریاستی عناصر دہشت گردی میں ملوث تھے اور ریاست پاکستان ان عناصر کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ اس ریاستی موقف پر کوئی فرد، کوئی ادارہ، کوئی ملک یقین کرے یا نہ کرےلیکن سٹیٹ آف پاکستان کا موقف یہی ہے اور بحیثیت سابق وزیر اعظم آپ کو بھی حلف کے تحت یہی موقف رکھنا ہوگا۔
5۔ مجھے بتائیے کہ ہم ان کے خلاف ٹرائل مکمل کیوں نہیں کر سکتے۔
اس جملے میں آپ نے خود کو ریاست پاکستان سے بالکل الگ کر لیا ہے۔ گویا آپ یہ ٹرائل مکمل کرنا چاہتے تھے لیکن ریاست آپ کے راستے میں رکاوٹ بن گئی۔ کیا اس سے قبل کسی پاکستانی سابق سربراہ حکومت نے ایسا کوئی بیان دیا ہے؟ اس معاملے میں پاکستانی ریاست کا موقف یہ ہے کہ ہم نے بھارت کی نشاندہی پر متعدد افراد کو گرفتار کیا اور ان پر انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل بھی شروع کیا لیکن بھارت نے ممبئی حملوں کے واحد گرفتار کیے جانے والے ملزم اجمل قصاب تک پاکستان کو رسائی نہیں دی اور نہ پاکستان کو ایسے ٹھوس شواہد فراہم کیے جن کی بنیاد پراس مقدمے کی کارروائی منطقی انجام تک پہنچائی جا سکتی۔ دریں اثنا بھارت نے اجمل قصاب کو پھانسی دے کر معاملے کو الجھا دیا۔ اسی وجہ سے یہ ٹرائل رکا ہوا ہے۔ میاں صاحب! آپ اس ریاستی موقف سے کیسے اختلاف کر سکتے ہیں تاوقتیکہ آپ ریاست سے بغاوت کا ارتکاب نہ کریں؟ آپ ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے ہیں، کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یاسوشل میڈیا دانشور نہیں کہ جو منہ میں آیا، بک دیا۔ آپ کے بیان کو دنیا میں ریاست کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

6۔ یہ معاملہ ہمارے لیے قطعی ناقابل قبول ہے۔ اسی کے خلاف تو ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس گفتگو کے دوسرے نکتے کی طرح آپ ایک بارپھر دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نہ صرف منہ زور ہے بلکہ عالمی امن کے لیےخطرہ بھی ہے۔ لیکن آپ کو یاد نہیں رہا کہ اس بیان کے بعد اگر کوئی پابندیاں یا کوئی کارروائی ہوئی تو ایسی صورت میں جو نقصان پہنچے گا تو وہ پورے ملک اور اس کے عوام کو پہنچے گا۔
7۔ صدر پیوٹن نے یہی کہا تھا، صدر شی جن پنگ نے یہی کہا تھا۔
جی نہیں میاں صاحب! ان دونوں معزز رہنماؤں نے ایسی کوئی بات آن دی ریکارڈ نہیں کہی۔ بفرض محال اگر کوئی بات آف دی ریکارڈ ہوئی بھی ہو تو آپ اسے ظاہر کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے کے باوجود آپ کو معلوم نہیں کہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے آپ نے عالمی برادری کے دو قابل قدر رہنماؤں کے بارے میں سفارتی بد اخلاقی کا ارتکاب کیا ہے۔ صدر شی اور صدر پیوٹن اتفاق فونڈریز میں آپ کے پارٹنرز نہیں کہ آپ جو چاہیں، ان سے منسوب کر دیں۔ اس معاملے پر حکومت پاکستان کو ان ممالک کے ساتھ وضاحت اور معذرت کرنا ہو گی۔
امید ہے کہ اب ہمارے ن لیگی دوستوں کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ اس بیان کے مضمرات کیا ہیں اور ان میں گئی کون سی باتیں ریاست پاکستان کے موقف کے خلاف ہیں تاہم یقین ہے کہ سوائے چند نیک نیت احباب کے، باقی سب اسی شد و مد کے ساتھ اپنا بے سُرا راگ الاپتے رہیں گے۔
Facebook Comments
بہت خوب زبردست اللہ کرے زور قلم اور زیادہ، قابل تحسین بصیرت افروز