بہت عرصے بعد بونس ملا تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کروں اس کا، جیسے ایک تپتا ہوا صحرا ہو اور اس میں ایک مسافر لمبی مسافت طے کر کے آیا ہو اور اس کے ہونٹوں پہ سخت پپڑی بھی جم چکی ہو اور قریب ہو کہ سانسوں کی ڈور اس تپتے صحرا میں ٹوٹنے کو ہو کہ اسے ایک نخلستان نظر آ جائے جس میں ایک اکیلا تنہا درخت ہو جس کی چھاؤں میں ایک ٹھنڈا چشمہ بہہ رہا ہو اور کچھ لمحے پیاسے مسافر کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ اس ٹھنڈے پانی سے کیسے سیراب ہو ۔ بالکل ایسے ہی بونس پا کر معلوم نہیں سوچ کے دریچے کس نخلستان میں کھل رہے تھے کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا اس بونس کا مصرف کیا بنے کہ جس سے دل مطمئن ہو ، نظر سکون پائے، روح سر شار ہو جائے۔
انہی سوچوں میں غلطاں صاحب چلے جا رہے ،جیب سے ہاتھ نکل نہیں رہا کہ جیسے ہاتھ نکلا تو ہوا بھی یہ تازہ بونس اڑا لے جائے گی جیسے اک خزانہ ہو جیب میں کہ جس کی حفاظت خصوصی طور پر اس ہاتھ کے ذمے لگا دی گئی ہو اور ہاتھ بھی برچھی پکڑے تنا ہو کہ کوئی آس پاس آئے تو گردن اڑا دے۔ دھوپ کی تمازت بھی نہ جانے کیو ں آج سرشار لگ رہی تھی۔ اور ایسا محسوس ہو رہا تھا میرے بونس ملنے کی خوشی میں آج یہ دھوپ بھی محو رقصاں ہے۔ اور مجھے آج پسینے کے قطرے بھی برے محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بارش کی پہلی بوندیں مٹی پہ برس کر مٹی کو جوخوشی دیتی ہیں کہ مٹی کی بھینی بھینی خوشبو چارسو پھیل جاتی ہے ایسے ہی یہ پسینے کی بوندیں بھی میری خوشی کا جشن منا رہی تھیں۔
میری آنکھوں میں میری کئی لاحاصل خواہشات مچل رہی تھیں۔ جنہیں اس بونس کی مدد سے حاصل کرنا میرا خواب تھا۔ اپنی موج میں چلتے چلتے اچانک رکنا پڑا۔ جیسے موج کو دریا میں کسی پتھر سے سامنا ہوتے ہی اچانک رک کے بکھر جانا پڑتا ہے ایسے ہی مجھے بھی رک جانا پڑا کہ میرے پاؤں پہ کچھ مضبوط احساس ہوا۔ دیکھا دو ہاتھ ، میلے ایسے کہ پہچانے نہیں جا رہے کہ ہاتھوں کا اصل رنگ کیا۔ کپڑئے ایسے کے نہ جانے کسی دور میں سفید تھے اب کالی رنگت۔ بال ایسے کسی زمانے میں گھنگریالے تھے اب جھاڑیوں کی صورت تھے۔
نہ جانے کیا ہوا ہاتھ نےبونس کی حفاظت سے انکار کر دیا۔ بہت سعی کی مگر کوشش بے سود، ہاتھ نے بونس دبوچا اور ذات کے جھگڑے کے باوجود خزانے پہ قبضہ ہاتھ نے کر لیا۔ اور بے ساختہ باہر نکل کر اس میلے لباس کی طرف بڑھا ۔ ہاتھ کو بہت سمجھایا کہ بہت سی معصوم خواہشات ہیں جو اس بونس سے پوری ہونی ہیں مگر وہ مان کے ہی نہ دیا۔ اور میلے ہاتھوں میں سارا بونس تھما دیا دل میں ایک جھٹکا سا لگا کہ اب خواہشیں کیسے پوری ہوں گی۔ اور ایک قدم بڑھایا توخوشگوار حیرت ہوئی روح نے خواہشات کو پیچھے دھکیل کر میلے ہاتھوں میں بونس تھامتے ہی چہرے پہ پھیلنے والی مسکراہٹ کو دل کا سکون کردیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں