قصہ حسرت

(حسن درانی)
میں نے چالیس سال پہلے فتح گنج چھوڑا تو گمان میں بھی نہ تھا کہ واپس نہ آ سکوں گا۔فتح گنج لکھنو سے20 پتھر باہر ایک دیہی قصبہ ہے اوریہی وہ جگہ تھی جہاںمیں پیداہوا ۔ میرا آبائی گھر اس وقت بھی نہایت خستہ تھا اور فتح گنج کی گوالمنڈی میں تھا۔ آج جمعہ کا دن تھا۔ مجھے رام پرشاد نے بتایا کہ الحاج شیخ مسافر خانہ کے تمام کمرے کانگریسی ممبروں سے بھرے پڑے ہیں اور ابو الکلام آزاد اندھے والی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھ کر باغ میں ایک جلسہ سے خطاب کریں گے ۔ میں نہا دھوکر 12بجے ہی مسجد پہنچ گیا۔ مولانا نے چند منٹ اسلامی فقہ پر بات کی پھر جمعہ کی جماعت کروا کے دفتر میں خاصہ تناول فرمانے چلے گئے۔ دوپہر 4بجے جانانہ باغ عوام الناس سے بھر چکا تھا۔ لوگ مولانا کو دیکھنے کے لئے جمع تھے۔ جلسہ کی کارروائی کے بعد جب مَیں جا رہا تھا تو میرے ساتھ رام پرشاد تھا۔ میں نے رام پرشاد کو بتایا کہ میں آزاد ہو گیا ہوں ۔ میں نے زندگی میں دو دفعہ مولانا کو براہ راست دیکھا اور دونوں دفعہ مصافحہ کی جرات نہ کر سکاتھا۔
لیکن تیسری بار جب وہ وزیرِ تعلیم بن چکے تھے اورروزانہ دہلی کناٹ پیلس کے قریب ایک گراونڈ میں چہل قدمی کرتے تھے۔ میں کئی دن سے مولانا کی تاک میں تھا ۔ سارا سارا دن پُرانی دہلی اور مہرولی کے کھنڈرات میں آوارہ گردی کرتا اور رات کے وقت کسی کھنڈر میں سو رہتا ،اُس دن ہمت کر کے اور بھاگ کے مَیں نے مولانا کو سامنے سے جا لیا تھا جب وہ قاضی کے حوض کی طرف پیدل ہی جا رہے تھے ، اگرچہ دو گارڈ بھی ساتھ تھے لیکن کسی نے مجھ سے پُر سش نہیں کی اور میں مولانا کے برابر ہو کر ساتھ چلنے لگا ۔ مولانا نے مجھے ایک نظر تعجب سے دیکھا ،پھر آنکھ کے اشارے ہی سے بولنے کو کہا لیکن کوشش کے باوجودوہ کچھ بھی نہ کہہ سکا تھا بس چلتا رہا ۔ اتنے میں مولانا کی موٹر سامنے آکر رُک گئی اور وہ تیز قدموں سے چلتے ہوئے اُس میں داخل ہو گئے مگر نہ جانے کیونکر جاتے ہوئے وزٹنگ کارڈ میرے ہاتھ میں تھماگئے۔
اُس دن کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔جس میں میرے دیکھنے کے لیے ایک ایسی دنیا سامنے تھی کہ اُس کا اندازہ پہلے کبھی نہ ہو سکا تھا ۔ مجھے مولانا آزاد نے اپنے دفتر میں ہی دوسرے درجے کے کلرک میں رکھ لیا تھا ۔ وزارت کے تمام اختیارات مولانا ہی کے پاس تھے۔ لیکن عملی طور پر نہ صرف مولانا ہی بلکہ گورنمنٹ کے سبھی اختیار ات سردار پٹیل ہی کے پاس تھے ۔ جس کا احساس مولانا کو تو شاید پہلے ہی ہو چکا تھا مگر مجھے اُسی دن ہوا ۔ میرا ڈیسک ریسپشن کے ساتھ ہی تھا جہاں سے عمارت کی مین انٹرنس شروع ہوتی تھی ، صبح دس بجے تھے میں ایک منشی کے ساتھ بیٹھا معمول کی ٹائپنگ میں مصرو ف تھا کہ ایک دم دفتر میں جیسے بھونچال آگیا ہو۔ سپاہی اور دو چار پیادے ہشیار باش کی شکل مٰیں آگے دوڑے آئے اور کہا ،دیکھو بھائی سردار صاحب آ رہے ہیں ،مولانا کو خبر کر دو ۔ میں نے اٹھ کر پی اے کے کمرے میں جھانکا اور یہی جملہ دہرا دیا ۔ پی اے نے جیسے ناک سکیڑ لی ہو ۔ خیر میں یہ کہہ کر واپس ہوا ہی تھا کہ سردار پٹیل کمرےمیں داخل بھی ہو گئے ۔ اتنے میں مولانا اپنی کرسی سے اُٹھ چکے تھے مگر سردار پٹیل نے مولانا سے سلام لے کر فوراً کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ مولانا ابھی کھڑے ہی تھے ۔ میرے لیے یہ لمحہ بالکل اچانک اور نیا تھا ۔ مولانا کے چہرے کی ناگواری صاف پڑھی جا سکتی تھی ۔ وہ طوہاً کرہاً خود بھی بیٹھ گئے اور کہا ، جی کوئی خدمت ، سردار پٹیل نے فوراً کہا مولانا خدمت تو ہم آپ کی کرنا چاہتے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا کیسے کریں ۔ خیر مطلب پہ آتے ہیں ،آپ کی عینک کے شیشے میرا خیال ہے اب دھندلا چکے ہیں اور میں چاہتا ہوں آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہماری عینک استعمال کر لیا کریں ، مولانا نے گھبرا کر کہا، سردار صاحب ، عینک تو میری بالکل صاف ہے مگر آپ کو شاید احساس نہیں ،تعصبات کے دائرے اِس بے ضرر تعلیم کے محکمے میں کیوں پھیلانا چاہتے ہیں ۔
ہرگز نہیں مولانا ، آپ کو انکار کرنا میرے بس میں نہیں تھا ، سمجھا درخواست کر لوں کہ فی الحال آپ کے محکمے میں اتنے فنڈ دینے کی گنجائش اِس لیے نہیں کہ ابھی کشمیر اور حیدر آباد کی لشکر کشی روکنا ہے جو آپ کے بھائی بندوں نے کراچی سے کر رکھی ہے ۔ مولانا آزاد کو سردار پٹیل کا یہ جملہ سن کر ایک دھچکا سا لگا اور وہ پٹیل کا منہ دیکھنے لگے ۔ در اصل مہاتما کے قتل کے بعد حالات اِ س قدر تیزی سے بدل رہے تھے کہ کسی کو احساس تک نہ ہو سکا اور یہ حالات نہیں بدل رہے تھے لوگوں کی فطرت بدل رہی تھی ۔ ایسی جرات اور دیدہ دلیری واقعی مہاتما بھی نہیں کر سکتا تھا مگر مولانا کو یہ احساس اُسی وقت ہو گیا تھا جب ایک دفعہ کابینہ کی میٹنگ میں ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ نہرو پٹیل کے سامنے جوابدہ ہے اور آج یہی بے بسی مولانا کے لیے مقدر محسوس ہو رہی تھی مگر مولانا شاید اِس وقت مسلم لیگ سے اتنے فاصلے پر تھے، جتنے فاصلے پر دلی کراچی سے ۔ میں وہاں کچھ دیر کھڑا پٹیل کی بات سُنتا رہا جس میں سردار مولانا کو آخری حد تک احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ در اصل ایک مسلمان پہلے ہے اور کانگریسی بعد میں ۔یہ وہ پہلی ڈور تھی جو مولانا کے ہاتھ سے چھوٹنے لگی تھی ۔ پھر دو چار سال میں ہی میرے دیکھتے دیکھتے مولانا تائی جی کے ہم پایہ ہو گئے تھے اور اب پتا نہیں ۔ یہ تائی جی کون ہے ؟
میں نے موڑ پر کھڑے ہوئے تانگوں اور رکشا کھینچنے والے لوگوں پر نظر ڈالی ۔ مریل رکشہ کھینچنے والے بنگالی پہلے صرف کلکتہ، مرشد آباد ، چٹا گانگ اور ڈھاکہ میں تھے۔ اب خیر سے لکھنو کے مضافاتی شہروں تک بھی پھیل چکے تھے۔ چالیس برس قبل مجھے اکثر تانگے والے پہچانتے تھے لیکن اب کوئی میرا شناسا نہ تھا۔ قصبہ کی طرف جانے والے راستہ پر گزشتہ سے کچھ کم ویرانی تھی ۔نواب صاحب بلم پور کا باغ ،جسے میں ہرا بھرا چھوڑ کر گیا تھا، اب اُجڑ چکا تھا۔ نواب کی حویلی تو سنبھال سرکار میں تھی لیکن ان کا یہ وسیع باغ فتح گنج میں تھا۔ اس لئے نواب صاحب کو باغ کی دیکھ بھال اور دیگر امور میں کوئی پریشانی نہ تھی مگر نواب صاحب کو اس وقت کی نو قیام شدہ حکومت میں وزارت کی پیشکش ہوئی تو وہ چلے گئے اور پیچھے سے باغ زرعی اصلاحات میں ضبط ہو گیا اور کچھ بنگالی پناہ گیروں کو الاٹ کر دیا گیا ،جن کو نہ تو آم کھانے کا ذوق تھا اور نہ آم اُگانے کا ۔اس باغ میں اب بنگالیوں کی جھونپڑیاں تھیں ،ساتھ ہی کچھ چوہڑوں نے بھی جھونپڑیاں بنا لی تھیں ۔ یہ مقامی بے زمین چوہڑے مسلی تھے، جن کو صرف فصل کی فصل یا گھروں کے تعمیرات کی سخت مزدوری کا کام ملتا تھا۔ فتح گنج کی تین چوتھا ئی آبادی تقسیم سے پہلے بھی مسلمان تھی اور اب اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہی تھی ۔ اس قصبہ میں مولانا آزاد اور مولانا مدنی کی عقیدت مندی اور نیاز مندی بہت تھی ۔ اس لئے زیادہ لوگوں نے ہجرت نہیں کی ۔میں بھی تقسیم کے دنوں میں محض اتفاق سے مغربی پاکستان چلا گیا تھا، پھر اُدھر ہی پھنستا چلا گیا۔
فتح گنج کا قدیم محرابی باب لکھنو جسے روہیلہ گردی کے بعد اس وقت کے نواب آف بلم پور ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ ابھی تک بمعہ تختی کے موجود تھا لیکن نہایت خستہ حال ہو چکا تھا۔ میں شہر میں داخل ہوا تو قصبہ میں کوئی بھی ایسا گھر نہ تھا جسے اپنا گھر کہہ سکوں لیکن میرے کچھ رشتہ دار یقینی طور پر اسی حویلی میں موجود تھے، جو میرے پردادا کی ملکیت تھی، جس میں آنکھ کھولی تھی ۔ حویلی میرے ہوش سنبھالنے کے وقت سے ہی دادا کے بھائیوں اور اس کے باپ کے بھائیوں میں تقسیم تھی اور خاصی گنجان آباد تھی۔ اُس کے مختلف کمرے ہی گھر تھے اور درمیان میں راستہ تھا۔ اسی طرح یہ حویلی ایک طرح کی گلی بھی تھی اور محلہ بھی لیکن اس گلی یا محلہ کو ہی مَیں گھر کہتا تھا ۔
میں حویلی کے سامنے پہنچا تو مرکزی دروازہ کھلا تھا لیکن اس کا رنگ گرد و غبار کی تہہ در تہہ چڑھنے کی وجہ سے سیاہ مائل ہو چکا تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی سیڑھیاں تھیں۔ اس کے طاق میں پتہ نہیں کب کا بجھا ہوا چراغ پڑا تھا اور اترتے چڑھتے ہوؤں کے ہاتھوں سے در و دیوار بھی دب سے گئے تھے۔ میرے اوائل سالوں میں، جب زمینداردادا زندہ تھا تو جمعہ کے دن حویلی کے باہر فقراء اسی دروازے اور سیڑھیوں کے نیچے کھڑے ہو کر صدا لگا تے تھے اور دادا کے بلانے پر صرف ایک فقیر ہی اوپر جاتا تھا۔ یہ تماشہ ہر جمعہ نماز کے بعد عصر تک چلتا اور جتنے فقراء ہوتے، توتماشا دیکھنے کے لیے فقرا سے زیادہ قصبہ کے بانکے جمع ہوتے تھے۔مجھے اس وقت یہ محسوس ہوا کہ دادا کو ساری زندگی سماجی رتبہ کی تلاش رہی ،جو اُن کو نہ مل سکا ۔وہ معمولی سے کاشتکار ہی رہے۔یہ واحد طریقہ تھا اُن کے کچلے ہوئے نفس اور انا کی تسکین کا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔دادا جی کے علاوہ حویلی کی دوسری معروف ہستی تائی اماں تھی ۔ وہ سب سے بڑے بیٹے کی بیگم تھی ،جو گھر کے واحد کمانے والے بھی تھے۔ وہ حویلی کے گھریلو منظر پر چھائی ہوئیں تھیں۔ بڑی تائی کو سب بہو بیگم یا بہو بی بی ہی کہتے۔اسی پس منظرمیں مَیں نے اپنا بچپن اور نوجوانی گزاری ۔ اس سیڑھی کے ہر قدم پر یادوں کی بارات تھی۔در و دیوار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کسی نے بھی عشروں سے ان کی مرمت کی طرف توجہ نہیں کی۔ مَیں نے جب آخری سیڑھی پر قدم رکھا اور اوپر والی منزل کے برآمدہ میں جھانکا تو سہ پہر کی دھوپ کا وقت تھا۔جیسے ہر جاتی ہوئی شے میں ایک ادا سی ہوتی ہے۔
تائی بیگم حسب سابق عشروں بعد بھی اِسی پیڑھی پر بیٹھی دال صاف کر رہی تھیں، جس پر گزرے وقت میں بیٹھا کرتی اور پورے کنبے پرحکم چلا تی تھیں لیکن اب عمر گزر گئی اور وہ بہت بوڑھی نظر آ رہی تھیں ۔ دا ل صاف کرنے کا مصرف وقت گزارنے کا بہانہ تھا ۔ وہ نہایت توجہ سے دال میں سے کنکر ڈھونڈ رہی تھیں اور ان کی شاہی میں بھی صرف وہی عمر رسیدہ افراد خانہ اور بچے بچ گئے تھے۔ جن کو مدراس اور حیدر آباد اور ممبئی میں کسی بھی شعبہ میں کوئی کھپت نہ ہوئی تھی ۔ عجب سکوت تھا۔ پتہ نہیں کتنے ہی لمحے یوں گزر گئے ۔میرے سینے میں اس منظر کا سکوت اور اداسی اُتر رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے آگے جھک کر ایک جھٹکا سا لیا اور سیدھا تائی بیگم کے پاس گیا ۔۔۔ تائی جی سلام۔ تائی بی بی اجنبیت سے بولی ’’ہائے‘‘ یہ تو ذاکر کی آواز معلوم پڑے ہے پھر پیڑھی پر بیٹھے بیٹھے ہی چشمہ درست کیا اور میری جانب دیکھتے ہوئے کہا’’ ہائے یہ تو ذاکر ہی ہے ‘‘۔ پیڑھی پر سے آواز دی ’ابے کمالے ابے کمالے ‘‘ میں صدقے، دیکھ تو سہی، ہمارے ازلوں کا گم ہوا بچہ حویلی واپس آ گیا ۔ ہائے کیسے کیسے معجزے ہوتے ہیں۔ اس دوران اندر سے 50برس کے پیٹے کا کمال حسین نکلا اور اس نے مجھے دیکھ کر چپ چاپ ہی گلے سے لگا لیا ۔اُسی لمحے دونوں کی آنکھیں تر ہو گئیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply