اک فیس بکی بنو کی ارتقاء پھاڑ تحقیق۔۔ معاذ بن محمود

فائن آرٹس اور آرکیالوجی کی طالبہ ہونے کے ناطے میں نے سناتن دھرم کے ادبی فن پاروں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اتنا قریب سے کہ ہنومان کی مورتی میں طبعیاتی تغیر سامنے آنا شروع ہوگیا۔ میوزیم کے گارڈ نے میرے کان میں سرگوشی کی “بی بی تھوڑا پراں ہوجاؤ، ہے تے مورتی پر ہنومان وی آخر مرد ای سی”۔ میں دور ہوگئی۔ مورتی کچھ دیر میں نارمل ہوگئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سناتن دھرم سے آج کے مضمون کا آغاز بھلا کیسے؟ اس آپتّی کے اک سے زیادہ کارن ہیں جو پیش ہیں۔

چند دن پہلے شائع ہونے والا تارڑ صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ تارڑ صاحب کے مضمون کا عنوان تھا “ہندؤوں کو نیا بھگوان مل گیا ہے”۔ یہ عنوان پڑھتے ہی میرا ذہن سناتن دھرم پہ جیسے تھم سا گیا۔ ایک نیا بھگوان۔ ایک نئی ہائیبرڈ بریڈ۔ ایک نیا میوٹینٹ۔ اک نئی واسنا۔ کنتو اس سے پہلے ڈارون کی ارتقائی تھیوری کو غلط ثابت کرنا اوشے ہے۔

میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ چارلس ڈارون ایک آنکھ سے کانا اور ایک کان سے بہرا تھا۔ ڈارون نے ایک آنکھ سے اپنے دشمنوں کی شکل دیکھی۔ اسے ان کے چہرے میں بندر کا ارتقاء دکھائی دیا۔ یہ کج علمی ہے۔ پرنتو اگر وہ آس پاس دوسرے چہرے دیکھتا تو اسے اور کئی جانور مثلاً سانپ، کتے، سور، گدھے وغیرہ دکھائی دیتے، مجھے تو ناگن بھی دکھائی دیتی ہے سویرے سویرے۔ ڈارون بہرا بھی تھا۔ اسی کارن سے وہ اپنے ارد گرد “اؤئے کتے دے پتر” سے لے کر “اؤئے سورا” نہ سن سکا۔ منش جاتی کی یہ گالیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان کتے سے لے کر سور تک جانوروں کے ساتھ ملاپ کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں کبھی کبھار ایک ہائیبرڈ میوٹینٹ وجود میں آتے رہتے ہیں۔ ڈارون کی کم علمی رہی کہ وہ اس حقیقت تک نہ پہنچ سکا جبکہ تارڑ صاحب کا وسیع علم انہیں اس ادراک تک کھینچ لایا۔ اپنے وسیع علم کو استعمال کرتے تارڑ صاحب نے ہندؤوں کو ایک نئے بھگوان کی گھوشنا کی ہے۔

سناتن دھرم میں ہنومان جی کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ سائینس آج یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ہنومان اور حقیقت کا اتنا ہی گہرا تعلق ہے جتنا میری تحریروں اور فکشن کا۔ سناتن دھرم میں کئی اور زوردار کردار بھی ہیں۔ نرسمہا نامی ایک کردار جس کا جسم شیر جیسا تھا۔ آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہوگا “اؤئے شیر دا پتر ای اؤئے”؟ یہ نرسمہا کا ذکر ہی تو ہوتا ہے۔ لاہور چڑیا گھر میں پائی جانے والی جل پری بھی تمام جدید انسانیت کو حیرت میں ڈال چکی ہے اور ثابت کر چکی ہے کہ انسان اور بندر کے درمیان کہیں نہ کہیں مچھلی بھی منہ مار گئی ہے۔ ویسے بھی ایک لبرل ویب سائٹ وہیل مچھلی اور انسان کے ناجائز سمبند پر صفحے سیاہ کر چکی ہے۔ بلاشبہ ڈارون کی تھیوری نہ صرف تھیوری بلکہ غلط تھیوری ہے۔ اگر وہ کانا اور بہرا نا ہوتا اور شدھ تپسیا کرتا تو کال شکتی کی بھی یوجنا کرتا۔

ہم آج بھی غور کریں تو انسانی چہروں پہ جانوروں کی خصلتیں مل جاتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان صرف بندر سے انسان نہیں بنا، بلکہ کئی پشّو اس کارخیر میں حصہ لیتے رہے۔ مثال کے طور پہ دھوکے باز کی شکل ہمیشہ سانپ سے ملتی دکھائی دیتی ہے، اور جس پہ ہمیں غصہ آئے اس کے چہرے میں کتے سے سور تک کئی جانور چھپے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ واسنا میں ناری بالکل ناگن لگتی ہے جبکہ پُرش جو بھی لگے مجھے تو اچھا ہی لگتا ہے۔

julia rana solicitors london

سناتن دھرم میں ایک کردار ایک ایسے راکشس کا بھی ہے جس کے بدن کا ایک حصہ پکھشی یعنی پنچھی یعنی پرندے جیسا ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ پنکج ادھاس کے گانے چٹھی آئی ہے آئی ہے چٹھی آئی ہے کی تال پر چشم زدن میں یہ راکشس ڈاکیا بنا میرے ذہن کے اندھیروں سے اجالوں کی جانب اڑتا چلا آیا۔ ایسے میں میرا لاشعور اچانک میرے سامنے ہنومان کا بچپن لے آیا اور کیوٹ بندر بھگوان بھویں چڑھا کر کہنے لگا “ہمیں پرتھوی کو بچانا ہوگا”۔ ہنومان چھلانگ مار کر راکشس کے گلے کی جانب بڑھا اور اسی دوران میں ہڑبڑا کر نیند سے اٹھ کر پانی کا گلاس اٹھانے کی کوشش کرنے لگی کہ گلاس چھن کر کے ٹوٹ گیا۔ دور کہیں کچن سے اماں کی آواز آئی “منحوسنی، سٹار پلس کم دیکھا کر”۔ میں انہیں کیسے بتاؤں کہ ان کی بیٹی ایسی تہلکہ خیز حقیقت دنیا کے سامنے لانے کو ہے جس پہ ڈارون کی روح منہ چھپاتی پھرے گی۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply