سیہون، ۱۷ فروری۔ مزار کے باہر کچھ نئے زائرین اترے ہیں۔ گزشتہ کل یہاں ایک خود کش حملہ ہوا تھا۔ صد ردروازے پر پولیس کی چیکنگ معمول سے زیادہ ہے۔دن ڈھلنا شروع ہو چکا اور سر پر چمکتا سورج اب کچھ ہٹ گیا ہے۔
میر پور خاص سے آیا اللہ دینو اپنی فصل کے لیے پریشان تھا۔ گئے برس آ م کی فصل اچھی نہ تھی۔ اس بار اسے امید تھی کہ بہتر ہو جائے ۔اللہ دینو کام چور نہ تھا , محنت پر بھروسہ رکھتا تھا لیکن پوری محنت کے باوجود اس کے دل میں ایک گرہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ گرہ سیہون آکر ہی کھلے گی۔ اس واسطے سیہون آیا تھا۔ سیہون منت مانگنے آیا تھا، دعا کرنے آیا تھا یا کیا کرنے آیا تھا، یہ اللہ دینو نہیں بتا سکتا تھا۔ مکمل محنت کے بعد بھی شاید یہ ایک کام رہتا تھا جو اس کی تسلی کر سکتا تھا۔ کل وہ حیدرآباد میں تھا، جب دھماکے کی خبر ملی, لیکن اللہ دینو واپس نہ گیا اور یاترا پوری کرنے آگیا تھا ،لیکن اب دل مایوس تھا۔ جیسے چارہ گر خود کسی پریشانی میں ہو۔ اسی اداسی میں وہ صدر دروازے سے صحن میں آکر بیٹھ گیا۔
بہاولنگر کی صابرہ کی اپنی پریشانی تھی۔ اس کی دونوں بچیوں کو جِلد کا مرض تھا۔اوکاڑہ میں اس کا بھائی فوجی ہسپتال میں ملازم تھا۔ بہاولنگر سے کئی بار وہ اوکاڑے جا کر فوجی ہسپتال میں بھی دکھا چکی تھی۔ جِلد پر لگانے کے لیے کریم ملتی تھی لیکن آرام نہیں آتا تھا۔ سردیوں میں جِلد خشک ہو کر زیادہ خارش کرتی۔ کسی نے اسے بتایا کہ سیہون جائے۔ اس کا بندہ فضل، بہاولنگر میں کپاس کی فیکٹری میں ملازم تھا۔ اپنی تنخواہ میں سے سیہون آنے جانے کا کرایہ اس نے دوپہر کا کھانا چھوڑ کر بچایا تھا۔فیکٹری سے چھٹی کرنے پر دیہاڑی کٹنی تھی اس لیے صابرہ اور بچیوں کو اکیلے حیدرآباد کی گاڑی میں بٹھا دیا۔ وہاں سے بس پر سیہون پہنچی۔ راستے میں فضل نے اسے فون پر دھماکے کا بتایا۔ اب صابرہ کیا کرے۔ بس سے اتر جائے یا سیہون جائے، نہ اس نے پوچھا نہ فضل نے بتایا۔ دونوں نے گم سم حالت میں فون بند کر دیا۔ اب مزار سامنے تھا۔اب وہ اندر جائے یا نہ جائے، سفر کی تھکاوٹ نے اس کی سوچ ماؤف کر رکھی تھی۔ چنگ چی رکشے کو کرایہ دے کر صابرہ بھی مزار میں داخل ہو گئی۔
نصرت کو لیکن کوئی پریشانی نہ تھی۔ اس کے لیے سیہون آنا ایک لاعنوان تجربہ تھا۔ کراچی میں چھٹیاں گزار کر واپس لاہور جانے کا وقت آیا تواس کے ساتھ آئے دوست نے سیہون جانے کا ارادہ بتایا۔ نصرت پہلے کبھی سیہون نہ گیا تھا۔ یوں بھی مزارات کو وہ ایسے دیکھتا جیسے سات سمندر پار سے آئے سیاح نئی چیز کو تجسس سے دیکھتے ہیں، لیکن دھماکے کے اگلے روزہی سیہون جانا؟ عام حالات میں نصرت اپنے دوست کی ضعیف العتقادی سے محظوظ بھی ہوتا تھا۔ کبھی کبھی سنجیدگی سے اسے قائل بھی کرنے کی کوشش کرتالیکن آج وہ سعید کا نہ مذاق اڑا سکا نہ اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ دوست کو اکیلے بھیجنا بھی سراسر ناقابل قبول تھا لیکن نصرت کا دل کہتا تھا اصل بات یہ بھی نہیں، کچھ اور ہے۔ کیا بات تھی، وہ سمجھ نہیں پایا۔بس دل کہتا تھا کہ اب تو جانا فرض ہے۔ وہ راضی ہو گیا۔ حیدرآباد سے ایک کھٹارا بس میں سیہون پہنچ گیا۔
دن ڈھل رہا تھا۔ مزار کے صحن میں ایسے ہی کئی گم سم چہرے تھے۔ ان کے چہرے تاثرات سے بالکل عاری تھے۔ لوگ چل پھر رہے تھے لیکن پھر بھی خاموشی سی تھی۔ جیسے انگوٹھی میں ایک نگینہ کم ہو، ایسے ہی کچھ کمی تھی۔ جیسے مرگ کی مایوسی۔ ۔۔۔۔۔پھر جیسے طلسم ٹوٹ گیا۔بادل چھٹ گیا۔ کمی پوری ہوگئی۔ نوبت کی آواز گونجی۔ گم سم چہرے لمحے بھر کو ایک دوسرے کو تکتے رہے اور پھر کسی نا دیدہ سرشاری میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ آنکھیں بند کیے اور ہاتھ اٹھائے، سرمستی میں دھمال سے صحن بھر دیا۔ یہ دھمال، حرفِ انکار تھا اور یہ سب انکاری تھے۔ اپنی مرضی، اپنی خوشی، اپنی آزادی کسی کے پاس رہن رکھنے سے انکاری تھے۔ یہ تنگ آئے لوگ، آج مزاحمت پر راضی تھے۔ان کے دل کی گواہی تھی کہ درد کا درماں اسی انکار میں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں