ٹرمپ کا امریکا کے وائٹ ہاؤس میں داخلہ ..

انتخابی سرگرمیاں کوئی انیس ماہ تک امریکہ کے سوشل میڈیا ، لوگوں اور سیاست دا نوں کے دماغ پر سوار رہیں ،اس سلسلے میں امریکن میڈیا کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے اپنے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں ،سیاسی پنڈتوں اور ٹی.وی اینکرز کو تگنی کا ناچ نچائےرکھا، ایسی فضا بنائی کہ ساری دنیا کی نظریں امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب میں دلچسپی لینے لگیں. اس بات کا معترف ہونا پڑے گا کہ امریکن کو اپنی چیزیں بیچنے کا ہنر خوب آتا ہے. چاہے اس چیز میں ہزاروں کیڑے کیوں نہ ہوں .اس لئے ٹرمپ اور ہیلری کی خوب بڑھ چڑھ کر بولی لگی ،کسی نے ہیلری کو خریدا اور کسی نے ٹرمپ کو ۔

یہ گہما گہمی زور و شور سے جاری رہی اور جیسے جیسے فیصلے کا وقت نزدیک آتا گیا ،الیکشن فیور بڑھتا گیا ،ایسے ایسے دعوے دیکھنے اور سننے میں آئے کہ عقل حیران و پریشان تھی . ہیلری ایک فیورٹ امیدوار تھیں،اور الیکشن سے پہلے کئے گئےتمام سروے ان کے جیتنے کی پیش گوئی کر رہے تھے. ٹرمپ کی جارحانہ ،غضبناک تقاریر ان کو ایک ناموزوں امیدوار کے طور پر سامنے لا رہی تھیں ،وہ تارکِ وطن،نسل پرست اور مسلم دنیا کے خلاف زہر اگل رہے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکی قوم کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلائیں گے،ملک میں ترقی کا دور دورہ ہو گا، تباہ شدہ صنعتوں اور ان کے بُنیادی ڈھانچے کو ازسر نو تعمیر کریں گے .عام آدمی کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے جائیں گے .

ادھر ہیلری کے کیمپ میں زیادہ تر سٹیٹس کو برقرار رکھنے ، معیشت کو بہتر کرنے اور امریکہ کے باقی دنیا سے اچھے تعلقات پر زور دیا جا رہا تھا. ٹرمپ کی تقریر سن کر مجھے بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی پاکستانی سیاست دان، اپنے کسی جلسے میں بڑھکیں مار رہا ہو، کیونکہ ایسی ترقی کی باتیں سنتے سنتے ہمارے کان پک چکے ہیں .لیکن وہ بنیادی فرق جو ٹرمپ کی جیت کا موجب بنا وہ اس کا اپنے قیمتی خیالات کا امریکن کو فروخت کرنے کا انوکھا طریقہ تھا، آخر وہ ایک بڑا منجھا ہوا کاروباری آدمی ہے اور اسے اچھی طرح علم تھا کہ بازار میں کیا، کب اور کیسے بکتا ہے .ہیلری حکومتی پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں لا سکیں اور اس طرح ایک کاروباری کے داؤ پیچ سے ہار گئیں ۔

دنیا میں اس وقت یہ ہی شور و غوغا ہے کہ ٹرمپ اپنی تعصبانہ پالیسیوں کی بنا پر ایک بڑا خطرہ ہے، وہ طاقت کے توازن کو بگاڑ دے گا؛ یورپ میں بھی اس پر کافی تشویش پائی جاتی ہے .فرانس کے صدر نے تو کھلے لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ، امریکہ کی دائیں بازو کی حکومت کے ساتھ کام کرنے میں دشواری پیش آے گی. جبکہ یورپین یونین نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ہم پہلے کی طرح امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں. ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا . یہ تو اس وقت واضح ہو گا جب ڈونالڈ ٹرمپ اپنی کابینہ کے کلیدی عہدوں پر کن لوگوں کو تعینات کرتا ہے اور ان لوگوں کی گلوبل پالیسی کیا ہے اور اس کے دنیا پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے ۔

julia rana solicitors

ٹرمپ کے جیتنے کے بعد جہاں ہیلری کے ووٹرز بڑی تعداد میں پریشان ہیں، وہیں امریکہ میں موجود امیگرینٹس کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے، وہ کیا سوچ رہی ہے. ؟ کیا وہ مہاجرین جو امریکہ کو کروڑوں ڈالرز کما کر دیتے ہیں کیا انکا اب امریکہ میں دانہ پانی اٹھ جاٰے گا.. کیا وہ لاکھوں کروڑوں مالیت کا اپنا کاروبار امریکہ سے سمیٹ کر برطانیہ سمیت دیگر ممالک کو ہجرت کر جائیں گے؟ ابھی کچھ پوری طرح واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ کن پالیسوں پر کار فرما ہوں گے اور کن کو صرف اپنی انتخابی مہم کا حصہ سمجھ کر ترک کر دیں گے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ متعصبانہ اور جارحانہ طرز عمل امریکہ کو کئی دوست ممالک سے کاٹ کر رکھ دے گا اور اس کا امیج پوری دنیا میں داغ دار ہو جائے گا .

Facebook Comments

فرحین جمال
قلمی نام : فرحین جمال تاریخ پیدایش : 31 دسبر . لاہور ،پاکستان . تعلیم : بیچلر ز ان سائنس ، بیچلرز ان ایجوکیشن ، ماسٹرز ان انگلش ادب پیشہ : درس و تدریس . خود ہی خیر آباد کہہ دیا پہلا مطبوعہ افسانہ : ' کھیل ' ثالث 2013، "رجو ' 2015 شمع دہلی، 'رجو '2015 دبستان ادب ، "آنگن "2014 ثالث ، "وقت سے مسابقت " سنگت 2016، "سرد موسموں کے گلاب " ثالث فکشن نمبر2016، ""سرخ بالوں والی لڑکی ' سنگت 2016 ، "دیوی " 2016 ، افسانے جو مشہور ہوے " میں کتاب "نقش پائے یوسفی" میں ایک تحریر شامل ،ابھی زیر طبع ہے افسانوی مجموعہ ، سال اشاعت ابھی تک کوئی بھی نہیں ..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply