آپ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے اور میں اندھیرے کمرے میں، آپ جب پیدا ہوئے تو آپ کے والدین وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ تھے اور میرا باپ صرف ایک مزدور. آپ کے کئی مربعوں پر محیط گھر میں سینکڑوں نوکروں چاکروں کی ریل پیل تھی اور میری ماں مجھے جنم دینے کے اگلے روز ہی بھٹے پر اینٹیں ڈھو رہی تھی. آپ کی خدمت کے لیے درجنوں گاڑیاں اور ڈرائیورز موجود تھے جبکہ میری ماں کو ہسپتال لے جانے والا بھی کوئی نہیں تھا. باورچی، خاکروب، خانساماں، مالی، شوفر آپ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے تھے، پولیس افسروں کی گاڑیاں آپ کو حصار میں رکھتی تھیں جبکہ میرا باپ جھوٹے مقدمات میں تین سال جیل بھگتتا رہا.
آپ نے تو کبھی خریداری بھی لوکل مارکیٹ سے نہیں کی، آپ گوچی، آرمانی اور ڈوچے اینڈ گبانا کے لاکھوں روپے کے برانڈ پہنتے رہے اور میں سردیوں میں ٹھٹھرتا رہا. آپ ملک کے بہترین سکول کالج میں داخل ہوئے اور میرے پاس سرکاری سکول کی فیس تک نہیں تھی. آپ کو لانے لیجانے کے لیے الگ سے ایک گاڑی اور ڈرائیور مختص تھا اور میں روزانہ میلوں پیدل چلتا رہا، آپ نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی اور میں بسوں کے پیچھے لٹکتا رہا. چار قطرے پسینہ نکالنے کے لیے بھی آپ کا اپنا ذاتی جِم بنایا گیا اس وقت میں چائے کے ہوٹل پر چھوٹا بھرتی ہوا. آپ کے کتے بھی منرل واٹر پیتے رہے اور ہمارے گھر کبھی ٹھنڈا پانی نہ ہوا، آپ کے گھر کی بجلی کبھی نہیں گئی اور ہمارا میٹر واپڈا والے کئی بار کاٹ کر لے گئے، آپ نے کبھی بینک کی لائن میں بجلی گیس کا بل جمع نہیں کروایا جبکہ میرا دادا شدید گرمی میں پینشن کی لائن میں ہی زندگی ہار گیا. آپ کا علاج بیرون ملک ہوتا رہا اور میری ماں سرکاری ہسپتال میں دوائی کے انتظار میں ہی مر گئی۔۔

اور پھر جب آپ میرے مسائل حل کرنے کی بات کرتے ہیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں. کیا آپ کو کچھ پتا بھی ہے کہ ہم غریبوں کے مسائل ہیں کیا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں