پاک افغان کرکٹ دوستی میچز کی منسوخی اور زمینی حقائق

پاک افغان کرکٹ دوستی میچز کی منسوخی اور زمینی حقائق
طاہر یاسین طاہر
بے شک افغانستان اپنے ملک میں ہونے والے ہر دھماکے اور حتیٰ کہ داعش کی سرگرمیوں کا ذمہ دار بھی پاکستان کو سمجھتا ہے۔ اور یہی افغان حکومت اور افغان عوام کی غلطی ہے کہ وہ بھارت کے ہاتھوں کھیلتے ہوئے پاکستان جیسے اپنے حقیقی ہمدرد اور محسن کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ہم ان ہی سطور میں کئی مرتبہ یہ بات لکھ چکے ہیں کہ افغانستان کی خانہ جنگی کی متعدد وجوھات ہیں۔ جن میں سے اہم ترین افغانوں کا قبائلی معاشرہ اور قبائلی روایات ہیں،علاوہ ازیں ان کا سطحی فہم اسلام اور دین کی قبائلی تفہیم بھی مغالطوں کو جنم دے رہی ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوھات ہیں،کئی ایک وجوھات اکیسویں صدی کی بھی عطا کردہ ہیں۔عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ و یورپ کے خطے میں مفادات ہیں اور اپنے مفادات کے لیے افغانستان کو وہ اڈے کے طور استعمال کر رہی ہیں۔داعش کو شام و عراق سے “محفوظ راستہ” دے کر افغانستان کی جانب دھکیلنے والی بھی یہی طاقتیں ہیں۔کیونکہ افغانستان داعش کے لیے آئیڈیل کیمپ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے ہی یہاں طالبان اور دیگر جہادی گروہ متحرک ہیں جو کسی بھی وقت اپنے اپنے علاقے بانٹ کر کارروائیاں کرتے رہیں گے۔
گذشتہ دنوں کابل میں سفارتی ایریا میں ایک خود کش حملہ ہوا میں جس میں 80 سے زائد افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ زخمیوں میں پاکستانی سفارتکار بھی شامل ہیں۔پاکستان سمیت دنیا بھر سے اس وحشیانہ حملے کی مذمت کی گئی۔حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔جبکہ افغان طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔یہان یہ امر قابل ذکر ہے کہ حملے فوراً بعد افغانستان میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا جس میں پاکستان کو دشمن ملک کہا گیا اور افغان حکومت پر زور دیا گیا کہ دشمن ملک کے ساتھ کرکٹ میچ نہ کھلا جائے۔ یاد رہے کہ ا فغانستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان فرید ہوتک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان کرکٹ بورڈ کا پاکستان کے ساتھ میچز کھیلنے کا اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے اور اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوگا تو سب سے پہلے افغان عوام کے خواہشات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔
فرید ہوتک نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب سوشل میڈیا پر ’نو کرکٹ ود پاکستان‘ کا ایک ٹرینڈ شروع ہوا جس میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچز کھیلنے کے اعلان پر افغانستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین عاطف مشعل پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور بعض صارفین نے یہاں تک لکھا ہے کہ کرکٹ میچز دوست ممالک کے ساتھ کھیلے جاتے ہیں، دشمنوں کے ساتھ نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ بورڈز نے گذشتہ ہفتے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان دو ٹی ٹوئنٹی میچ ہوں گے، جن میں سے ایک کابل اور دوسرا لاہور میں کھیلا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر افغانستان میں اکثر صارفین نے اسلام آباد میں متعین افغان سفیر ڈاکٹر حضرت عمر زاخیلوال کو بھی اس لیے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ اُنھوں نے افغان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین عاطف مشعل کی میزبانی کی تصویریں اپنے فیس بک پیج پر شیئر کیں۔ بعد میں افغان سفیر نے یہ تصویریں اور پاک افغان کرکٹ کے حق میں اپنا فیس بک سٹیٹس ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ دریں اثناپاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے کرکٹرز کو افغانستان میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔
یاد رہے کہ افغانستان میں 18 جولائی سے شروع ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں شریک مختلف فرنچائزز نے پانچ پاکستانی کرکٹرز کامران اکمل، عمراکمل، بابراعظم، سہیل تنویر اور رومان رئیس کی خدمات حاصل کی تھیں۔اکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے کرکٹرز، کوچز اور امپائرز کو این او سی جاری نہیں کر رہا کیونکہ وہاں سکیورٹی کی صورتحال بہت خراب ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ قدم افغانستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ ماہ ہونے والی دو میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کی منسوخی کے اعلان کے بعد اٹھایا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پی سی بی نے بالکل راست اقدام اٹھایا ہے۔پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں تو کرتا آ رہا ہے اور کر بھی رہا ہے مگر افغان حکومت اور عوام کا رویہ اور زبان دہلی کی نظر آرہی ہے۔یہ وہی افغان کر کٹ ٹیم ہے جس کی کوچنگ ایک پاکستانی سٹار انضمام الحق نے کی اور اس ٹیم کے کھلاڑیوں کو بیٹ پکڑنا سکھایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان آج تک چالیس لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجروں کی میزبانی کر کے اپنی معیشت پر بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ مگر افغانستان ہے کہ نہ صرف پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے بلکہ افغان حکومت اور عوام پاکستان کے خلاف زبان درازیاں بھی کر رہے ہیں۔
امریکہ اور بھارت مل کر پاک افغان تعلقات کو خراب کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں جبکہ افغان دہلی کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک حد تک ہی افغانوں کی دریدہ دہنی اور الزام تراشیاں بر داشت کر سکتا ہے۔ افغانستان بھارتی روش پہ گامزن ہے۔ بھارت بھی کر کٹ کو پاکستان کے خلاف اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتا ہے اور اب یہی رویہ افغانوں نے بھی اپنا لیا ہے۔پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں جارحیت لانا ہو گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply