گزشتہ دنوں خاتون خانہ نے فرمایا کہ جس کو دیکھو، ایک چھٹانک نمک لینا ہو یا پورے مہینے کا سودا، وہ جدید طرز کے بڑے سپر اسٹورز کی طرف بھاگا چلا جاتا ہے اور اپنی ضرورت کی چیز خریدنے کے علاوہ ائرکنڈیشنڈ ماحول سے موسم اور مہنگائی کی گرمی کا دف مارتا ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ پورے مہینے کا سودا بھی لینا ہو تو وہی علاقے کی ہول سیل مارکیٹ میں دھول مٹی چاٹنے کے ساتھ دھوپ کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس دفعہ تو میں آپ کے ساتھ اس جدید طرز کے سپر سٹور ضرور جاؤں گی کیونکہ یہ سپر سٹور کا اشتہار دیکھیں یہاں چاول کتنا سستا ہے، میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ آج کے دور میں چاول اتنا سستا بھی مل سکتا ہے۔ چلیں مجھے ابھی لے کر چلیں۔ ۔ ہم نے کہا آپ کا کہا ٹالنے کی ہم میں جرات کہاں لیکن ایک شرط ہے کہ ہم بخشو کوچوان سے اس کے گھوڑے کی عینک لاکر آپ کی آنکھوں پر چڑھا دیں گے تاکہ آپ سپر سٹور میں بخشو کے گھوڑے کی مانند سیدھا ایک ہی جانب دیکھتی ہوئی چاول کے کاونٹر سے چاول لیں اور واپس آجائیں۔ بصورت دیگر اگر آپ کو دائیں بائیں دیکھنے کا موقع مل گیا تو چاول پر ہونے والی تین چار سو روپے کی بچت کم از کم پانچ ہزار کی پڑے گی، اور یہ وہ ضرب ہوگی جو ہمیں کم از کم اگلی تنخواہ تک سہلانی پڑے گی۔
حیرت انگیز طور پر ہماری یہ شرط خاتون خانہ نے بڑی معنی خیز مسکراہٹ سے ویسے ہی قبول کرلی جیسے ہم نے برسوں پہلے خود ان کو قبول کیا تھا۔ ۔ ہم تو یہ بلینک چیک ملنے کے بعد خوشی کے مارے دوڑے دوڑے بخشو کوچوان کے ڈیرے کی طرف چل دیے کہ چلو آج خدا اور صنم دونوں کو راضی کرنے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ لیکن بخشو نے ہماری فرمائش پر یہ کہہ کر اوس کی برسات کردی کہ “باؤ جی وہ دن لد گئے جب بخشو میاں ٹانگہ چلاتے تھے، اب تو گھوڑا اور اس کا چشمہ الگ الگ کرائے پر چلاتے ہیں”۔
ہم نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے “باؤجی انتخابات کا دور دورہ ہے، اور گھوڑوں کی اتنی مانگ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنی جماعت کے سواروں سے زیادہ گھوڑوں کی ہی طلبگار ہے کہ یہی تو کامیابی کی ضمانت ہیں، کارکن کا کیا ہے، اس نے دریاں ہی بچھانی ہیں یا دھرنوں میں حاضری ہی لگانی ہے، اس سے زیادہ ان کی اوقات ہی نہیں، بس باؤجی یوں ہمارے گھوڑوں کی اتنی مانگ ہوگئی ہے کہ میں نے گدھوں کو بھی فوٹوشاپ کی مدد سے گھوڑا بنا کر سیاسی جماعتوں کو پہنانا شروع کردیا ہے” اس بات پر ہمیں یاد آیا کہ واقعی جب سے انتخابات قریب آئے ہیں کہیں سے گدھوں کی کھالوں کی برآمدگی کی بھی خبر نہیں آرہی ہے۔
ہم نے کہا اچھا چلو گھوڑوں کی بات تو سمجھ میں آگئی، ہر انتخاب میں ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن یہ گھوڑوں کی عینک کہاں استعمال ہورہی ہے؟ یہ پہلے تو کبھی انتخابات میں استعمال نہیں ہوئے؟ قہقہہ لگا کر بولا “بہت ہی بھولے ہو باؤجی آپ۔ او میرے بھولے بادشاہ جدید دور ہے، آج کل ساری انتخابی مہم سوشل میڈیا پر چل رہی ہے اور سوشل میڈیا کے دانشوروں میں ان عینکوں کی مانگ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ سوشل میڈیائی دانشور گھوڑے کی عینک لگا کر بس تصویر کا ایک ہی رخ دکھانے میں مصروف ہیں۔
صاحبو! بخشو کی بات کتنی سچی تھی واقعی سوشل میڈیائی دانشور نہ دائیں دیکھ رہے ہیں نہ بائیں، بس جس پٹری پر ان کی ٹرین چل پڑی اسی پر دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اور پٹری بدلنا تو یوں بھی ٹرین کے اختیار میں کبھی نہیں رہا۔ کسی کو کوئی خبر ملی یا افواہ سنی یا دل میں کوئی خیال بھی آیا کہ شاید ایسا ہوا ہوگا تو اس کو ایسا مہم کے انداز میں لے کر چل پڑتے ہیں کہ تصدیق کرنا تو دور کی بات اخلاق و روایات کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لیں ایک جماعت کی خاتون اول کینسر کے باعث بیرون ملک ہسپتال میں موت سے لڑ رہی ہیں لیکن یار لوگوں اس میں بھی سازش ڈھونڈ رہے ہیں۔ اور حتیٰ کہ بین یہ ڈال رہے ہیں، بلکہ کوسنے یہ دے رہے ہیں کہ دنیا بھر کی صحافی برادر ی عموماً اور پاکستانی صحافی خصوصاً ان کی خواہش کے مطابق ہسپتال سے کوئی خبر کیوں نہیں نکال پارہے ہیں۔
مثلاً آج ہمارے ایک سوشل میڈیائی دوست نے سوال کیا کہ کیا کوئی اتنے لمبے عرصے تک وینٹی لیٹر پر رہ سکتا ہے؟ ہم نے کہا ہر قسم کا اختلاف و اتفاق اور سیاست ایک طرف لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا صحیح جواب تو کوئی شعبہ طب سے متعلق فرد ہی دے سکتا ہے۔ ہم تو اپنی معلومات اور مشاہدے کی بنیاد پر ہی جواب دے سکتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ چند روز سے زائد وینٹی لیٹر پر رہنا حقیقی معنوں میں حالت نزع ہی ہے۔ اور طبی تاریخ بھری پڑی ہے ایسی مثالوں سے، لوگ چھ چھ ماہ اور سال سال بھر وینٹی لیٹر پر رہے ہیں اور اگر قومہ یا سکرات (حالت نزع) کی بات کریں لوگ کئی ماہ سے کئی سال تک اس میں رہے ہیں۔ میرے اپنے مشاہدے میں پاکستان کے ہی ایسے تین چار کیسز ہیں۔ جس میں مریض ہفتوں حالت سکرات میں رہنے کے بعد اس دارِفانی سے کوچ بھی کرگئے اور ایسا بھی ہوا کہ مہینوں قومہ میں رہنے کے بعد معجزاتی طور پر نہ صرف قومہ سے باہر آئے بلکہ اس کےبعد بھی کئی برس زندہ رہے۔
ان میں سب سے مشہور کیس تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بڑے بھائی زاہد خاقان عباسی کا ہے جو سانحہ اوجڑی کیمپ میں اپنی گاڑی میں اپنے والد خاقان عباسی کے ہمراہ ایک بھٹکے ہوئے میزائل کی زد میں آگئے تھے۔ خاقان عباسی کی وہیں موت واقع ہوگئی تھی اور زاہد خاقان عباسی حالت نزع میں چلے گئے۔ وہ اس عالم میں سولہ سال بستر پر پڑے رہے اور سولہ سال بعد خالق حقیقی کے پاس گئے۔ لہٰذا ہمیں کسی کی بیماری پر نہ تو خوش ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی کی بیماری کو مثبت یا منفی انداز میں سیاسی مسئلہ بنانا چاہیے ہماری تو معاشرتی روایت یہ ہے کہ اگر کسی دشمن کے گھر بیماری یا فوتگی تو بڑی چیز کوئی شادی یا خوشی کی کوئی دوسری تقریب ہو تو اس میں اگر بوجوہ شرکت نہ بھی کرپائیں تو اپنے خیر سگالی کے جذبات ضرور پہنچا دیا کرتے تھے۔ اب خدا جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ بیماری آزاری کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ بیماروں کا خیال تو توپ و تفنگ والی جنگوں میں بھی رکھا جاتا ہے۔ .

ہمیں ہر حال میں اللہ سے رحم کا طلبگار رہنا چاہیے، اپنے لیے بھی اور مریض کے لیے بھی۔ اور اگر اس میں کسی کی کہیں کوئی بدنیتی شامل ہے تو اللہ سے اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے، کہ یہی ہمارے دین کی تعلیم اور ہمارے نبیﷺ کی سنت ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا کرے کہ ہم سیاسی کھیل کو اس کے میدان تک ہی رکھیں اس کو دوسرے گلی کوچوں میں لے جانے سے سوائے گھروں کے شیشے ٹوٹنے کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں