سب سے پہلے دو واقعات سن لیں۔
قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں تقسیم ہند سے پہلے عبدالکریم نامی ایک شخص کا قصہ لکھا ہے جسے انگریزوں سے “خان صاحب” کا خطاب حاصل کرنے کا جنون تھا اور اس کے لیے اس نے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے، انگریزوں کی خدمت کی تھی، ان کی بیویوں کے قصیدے لکھے تھے، اپنی بیوی کے زیور گروی رکھ کے گوروں کے آرام و آسائش کا خیال رکھا تھا۔ سالہاسال کی مجنونانہ کوششوں کے بعد آخرکار وہ مبارک گھڑی آ گئی جب ایک انگریز میم کی مہربانی سے انہیں خان صاحب کا خطاب مل ہی گیا۔
چند برس بعد قائداعظم کی ہدایت پر مسلم لیگ نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ برٹش گورنمنٹ کے بخشے ہوئے اعزاز واپس کر دیں تو عبدالکریم نے ایک لحظہ دیر نہیں لگائی اور ہنسی خوشی اس خطاب کو واپس کر دیا جس کے حصول میں اس نے ایک عمر بتائی تھی۔
اب دوسرا واقعہ سنیے۔
مخدوم امین فہیم نے تمام عمر پیپلزپارٹی سے وفاداری نبھائی۔ بھٹو دور سے شروع ہونے والے اس تعلق کی زنجیر کو ضیا کی آتشیں آمریت بھی نہ پگھلا سکی اور وہ ایک فولادی عزم کے ساتھ نصرت بھٹو اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو کے ساتھ وفادار رہے۔ اس تمام عرصے میں ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔
اس کے بعد آصف زرداری کا دور آیا جنہوں نے اپنی کمزور حکومت کے پانچ سال گزارنے کے لیے کرپشن کے تمام تر در کھول دیے۔ انہوں نے خود بھی مال بنایا اور اپنی جماعت میں بھی ایسا کلچر پیدا کیا جس کی وجہ سے ہر شخص کرپشن کے جوہڑ میں لت پت ہونا ایک اعزاز سمجھتا تھا۔ پھر نیلے آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا کہ تمام عمر صاف ستھری زندگی گزارنے والے مخدوم امین فہیم کے بنک اکاؤنٹ سے دو کروڑ روپے نکل آئے اور وہ اپنی آخری سانسوں تک اس رقم کے جائز ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔
ان دو مثالوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر دیانت دار اور بے غرض قیادت میسر آ جائے تو معاشرے کے اکثر لوگوں کے اندر کا فرشتہ جاگ اٹھتا ہے اور وہ عبدالکریم کی طرح اپنی تمام عمر کی کمائی سے ہنستے مسکراتے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ اور اگر بدعنوان قیادت میسر ہو تو مخدوم امین فہیم کی طرح کورے لٹھے جیسے کردار پر بھی کرپشن کے گندے چھینٹے پڑ ہی جاتے ہیں۔
یہ مثالیں چاول کے دو دانوں کی طرح ہیں ورنہ انسانی تاریخ کی دیگ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اصل میں ہم انسانوں کو فرشتے اور شیطان کی دو انتہائی صورتوں میں تقسیم کر لیتے ہیں حالانکہ عام انسان میں نیکی اور بدی، دونوں کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، یہ تو حالات اور ماحول ہوتا ہے جو اس کے اندر نیکی یا برائی میں سے ایک کو ابھار دیتا ہے اور دوسرے کو دبا دیتا ہے۔
اسی طرح جب عوام یہ دیکھتے ہے کہ حکمران اور ان کے گماشتے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں اس کے باوجود وہ معاشرے کے باعزت رکن ہیں تو عوام کے اندر کا شیطان بھی جاگ اٹھتا ہے اور وہ اپنی رسائی کے دائرے میں لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔ سٹیٹس کو کی طاقتوں کو یہ صورتحال بہت مرغوب ہے کیونکہ ایک مایوس معاشرہ اپنے ہی گریبان میں ہاتھ ڈالے رکھتا ہے اور اپنے ہی بال نوچتا رہتا ہے۔ اشرافیہ اس کے غیض و غضب سے محفوظ رہتی ہے۔ یہ قوتیں کوشش کرتی ہیں کہ اس مایوسی کو بڑھاوا دیا جائے اور ایسے فلسفے پھیلائے جائیں جو تبدیلی کی امیدافزا خواہش رکھنے والوں کو بھی مایوسی کے اندھے غاروں میں دفن کر دے۔
آج کل مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے زعما مل کر ایک ہی ٹھمری گا رہے ہیں اور وہ یہ کہ عمران خان کے اردگرد وہ لوگ ہیں جو سٹیٹس کو کے نمائندے رہے ہیں، ان کے ذریعے کیا تبدیلی آئے گی۔ پراپیگنڈے کی اس دھول میں وہ اس حقیقت کو چھپا لیتے ہیں کہ عمران خان کے اردگرد موجود لوگوں میں سے بہت سے اس لیے سٹیٹس کو کے نمائندے تھے کہ ان کے سابقہ قائدین کسی قسم کی تبدیلی نہیں چاہتے تھے۔ جب قائد حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہے گا تو اس کے ساتھ والے بھی اسی ڈگر پر چلیں گے۔
اس کے برعکس اگر عمران خان اقتدار میں آ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنی تبدیلی کی بے پناہ خواہش اور کرپشن سے دور ہونے کی وجہ سے اپنے قریبی لوگوں میں بھی یہی جذبہ بھر دے اور وہ لوگ اس کے دست و بازو بن کر تبدیلی کے علم بردار بن جائیں۔ ابھی ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان ایسا کر پائے گا یا نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے آزمائے بغیر ہی رد کر دیا جائے۔ یا تو ہمیں پاکستان تحریک انصاف کا ایسا متبادل تلاش کر دیا جائے جس سے تبدیلی کی امید رکھی جا سکے۔ اگر مقابلے میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی جیسی سٹیٹس کو کی محافظ قوتیں ہیں تو پھر ہر صورت عمران خان کو ووٹ دینا چاہیے تاکہ اسے بھی آزما لیا جائے۔ اگر وہ کامیاب نہ بھی ہوا تو کم از کم نواز شریف اور زرداری کی طرح قومی خزانے میں نقب تو نہیں لگائے گا۔
اگر آپ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے بیانات اور تقاریر سنیں تو ان کا واحد مقصد پی ٹی آئی کے پرجوش نوجوانوں میں مایوسی پھیلانا ہے۔ عمران خان سے اپنے ساتھیوں کے چناؤ میں یقیناً غلطیاں ہوئی ہیں اور بہت سے مخلص اور دیانت دار صحافی اور دانشور اس حوالے سے مسلسل بات بھی کر رہے ہیں۔۔ ایسے لوگ معاشرے کا ضمیر ہیں، ان کی بات مکمل احترام سے سنی جانی چاہئے۔۔۔ تاہم اگر شرجیل میمن، خواجہ سعد رفیق، آصف زرداری، نواز شریف اور ان جیسے دیگر کرپٹ لوگ تحریک انصاف پر تنقید کریں تو اسے ایک خندہ استہزا کے ساتھ دور پرے پھینک دینا چاہیے کیونکہ اس تمام تر شور و غوغا کا مقصد تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں میں مایوسی پھیلانا ہے تاکہ وہ الیکشن والے دن گھر بیٹھ جائیں اور پولنگ بوتھ پر سٹیٹس کو کے حامیوں کا راج ہو۔
یہ بات ہر وقت یاد رکھیں کہ ہم آصف زرداری اور شریف فیملی کی کرپشن اور نااہلی دیکھ چکے ہیں جبکہ عمران خان کو ابھی ہم نے آزمانا ہے۔ اگر وہ بھی معیار پر پورا نہ اترا تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو پچھلے دو حکمرانوں کے ساتھ کر چکے ہیں۔ ہم کسی شخصیت یا پارٹی کے غلام نہیں، جو بھی ہماری امیدوں کی شمعیں بجھائے گا اسے مسند اقتدار سے کھینچ کر نیچے پھیک دیں گے اور ایک نئی قیادت کی تلاش شروع کر دیں گے۔ معاشرے اسی طرح آگے بڑھتے ہیں، ایک قائد نے مایوس کیا ہے تو دوسرے کو موقع دو، وہ بھی نااہل اور کرپٹ ثابت ہو تو تیسرے کا انتخاب کرو۔ سٹیٹس کو فقط اسی طرح ہی ٹوٹے گا۔ بہتر سے بہتر کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔ یاد رکھیں کہ اگر مخالفین کے پراپیگنڈے کی وجہ سے مایوسی کی چادر اوڑھ لی تو پھر صبح امید کی روشن کرنوں کے دیدار سے دائمی محرومی مقدر ہو جائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں