آنسو

آنسو
محسن الطاف چغتائی
ریٹائرمنٹ کے بعد مصطفیٰ کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا تھا .وہ ملکی حالات کو دیکھتا اور اندر ہی اندر کڑھتا رہتا. آج بھی جب مصطفیٰ نے ٹی وی آن کیا تو شہر میں ہونے والے کسی خوکش بم دھماکے ،کلبھوشن یادیو کیس اور حکومتی کردار پر بات ہو رہی تھی۔ کوئی کلبھوشن یادیو کو جاسوس اور کوئی حکومت کو غدار گردان رہا تھا اور کہیں کوئی دھماکے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا رہا تھا۔ وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آج بھی وہ یہ بات نہ سمجھ سکا کہ آج تک جو بھی ملک میں ہوا وہ ملک کے مفاد میں تھا یا نہیں۔؟ حکومتیں ملکی مفاد کے لیے بنتی ہیں یا اپنے مفاد کے لیے۔؟ کیا بدعنوانی کی کھلی چھٹی ملنا پاکستان کا نظریہ تھا یا مذہب۔؟ کیابم دھماکے اس ملک کا مقدر تھے یا ہم نے خود ان کو اپنا مقدر بنایا۔؟
ساتھ پڑے میز پر اس کے موبائل فون پر کسی نامعلوم نمبر سے کال آ رہی تھی مگر ٹی وی کی آواز کی وجہ سے فون کی آواز اس تک نہ پہنچ سکی۔انہیں سوچوں میں گم وہ کہیں ماضی میں چلا گیا. اور وہ فون کال۔۔۔۔
جیسے ہی ٹرین چلنے کی آواز آئی سب نے ایک ہی آواز میں نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا.۔۔ ٹرین پاکستان کی طرف چل پڑی۔جگہ کم تھی اس لیے کافی لوگ بوگیوں کی چھت اور کھڑکیوں سے لپکے ہوے تھے۔ مصطفیٰ اور اس کے گھر والوں کو ٹرین کے اندر جگہ مل گئی۔اس کے باپ نے گھر چھوڑتے وقت کچھ ضروری سامان ساتھ باندھ لیا تھا اور مصطفیٰ، اسکی ماں اور چھوٹی بہن کو لے کر پاکستان کی طرف روانہ ہو گیا۔
ایک انجانا خوف تھا جو سر پر سوار تھا لیکن ساتھ میں سب یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اب تمام دشواریوں سے نجات ملنے والی ہے۔تمام دکھوں کا مداوا ہونے والا ہے۔ مصطفیٰ نہیں جانتا تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہو گا۔؟ مصطفیٰ کی عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی ،وہ اپنے آس پاس ہونے والے مناظر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا .۔وہ اب تک اس الجھن میں تھا کہ آخر کیوں انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا؟
“ماں ہم کہاں جا رہے ہیں؟ہم اپنا گھر کیوں چھوڑ رہے ہیں”؟ آخر اس نے اپنی ماں سے پوچھا
“بیٹا ہم اپنے ملک پاکستان جا رہے ہیں” اس کی ماں گویا ہوئی
یہ پاکستان کیا ہے؟مصطفی ٰنے الجھے ہوئے انداز سے پوچھا
بیٹا ہمارا ملک جہاں ہر سو امن ہو گا ، جہاں ہمیں کوئی پریشان نہیں کرے گا،جہاں ہر طرف خوشیاں ہوں گی،اس کی ماں نے غم اور خوشی کے ملے جلے انداز میں جواب دیا۔
وہ مزید کچھ بتاتی کہ اچانک ایک شور اٹھا.۔۔کہیں کوئی آواز دے رہا تھا ۔”مسلوں” کو قتل کرو،انہیں پاکستان نہ پہنچنے دو۔
مصطفی ٰکی ماں نے اسے اور اس کی بہن کو بازووں میں چھپانے کی کوشش کی، اس نے دیکھا کھڑکیوں سے لپکے لوگ نیچے گر رہے تھے ،باہر کا منظر الگ تھا ۔ ہر طرف لاشیں بکھری تھیں۔قتل وغارت کا سلسلہ جاری تھا۔
” بچوں کو سیٹ کے نیچے چھپاو”مصطفیٰ کا باپ اسکی ماں سے کہہ رہا تھا۔
اسکی ماں نے اسکو سیٹ کے نیچے چھپا کر آگے سامان رکھ دیا۔ مصطفی نے دیکھا بہت سے پاووں نظر آ رہے تھے ۔ لوگ بھاگ رہے تھے کہ اچانک اس نے چیخوں کی آوازیں سنیں۔وہ اسکی ماں اور بہن کے رونے کی تھیں۔پھر اسنے انہیں نیچے گرتے دیکھا ۔وہ خون میں لت پت تھیں۔سکھوںاور ہندﺅں نے ٹرین پر حملہ کر کے اس کے ماں باپ اور معصوم بہن کو قتل کر دیا تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ یونہی دبکا بیٹھا رہا۔ کچھ وقت گزرا کہیں سے آواز آئی ۔۔۔ہم پاکستان پہنچ آئے ہیں۔ وہی پاکستان جس کاا سکی ماں نے اسے بتایا تھا کہ وہاں امن ہو گا ۔مگر اسکی دنیا اجڑ چکی تھی ، آنکھیں خاموش تھیں۔۔۔اس کے ماں ،باپ اور بہن کی لاشوں کے ساتھ اور لوگ بھی قتل ہو چکے تھے ۔۔۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔
کیوں ،کس نے کیسے قتل کیا یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
اگر پاکستان میں امن ایسے ہونا تھا تو ہم کیوں یہاں آئے۔؟
وہ سوچوں میں گم تھا کہ ایک شخص نے اسے باہر نکالا۔وہ بشیر چاچا تھے اس کے ہمسائے۔۔ انہوں نے مصطفیٰ کو ساتھ لیا اور ایک گھر کی طرف چل پڑے۔ ان کی بیٹیاں بھی ساتھ تھیں البتہ مہرالنساء نظر نہیں آ رہی تھی جو ان کی بڑی بیٹی تھی جس سے وہ پڑھنے جایا کرتا تھا. چچی صغراں کسی کو بدعائیں دے رہی تھی شاید مہرالنساءکو بھی کسی نے قتل کر دیا تھا۔بالآخر وہ ان کے ساتھ ایک گھر میں رہنے لگا۔
دن یونہی ہفتوں ,مہینوں اور سالوں میں گزر گئے۔بشیر چاچا نے مصطفیٰ کو پڑھایا اور مصطفی ٰکی اپنی بیٹی سے شادی کر دی۔ وہ ان کے ساتھ رہتا تھا ۔۔ اس کا خاندان نہیں تھا اور بشیر چاچا ادھورا خاندان مکمل کرنا چاہتے تھے۔
پہلے پہل مصطفی ٰنے ایک ڈ یپارٹمنٹ میں کلرک کی نوکری حاصل کی، لیکن تعلیم کی وجہ سے وہ جلد ہی ترقی کرتا ہوا اعلیٰ عہدے تک پہنچ گیا۔اس نے پاکستان کی سیاست اور بیوروکریسی کو بہت نزدیک سے دیکھا۔اس نے اپنی زندگی کے تیس برس پاکستان کی خدمت کی۔ وہ پاکستان میں رہ کر یہ بات سچ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان ایک پرامن جگہ ہے وہ اس میں ناکام تو نہ ہوا مگر کامیاب بھی نہ ہو سکا۔ ایک کرب تھا جو سینے میں تھا ۔
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آزادی کے وقت اپنوں کی لاشیں دیکھنا تکلیف دہ تھا یا آج کا پاکستان ۔
فون پھر بجنے لگا، اس نے اچانک دیکھا کئی کالز ایک ہی نمبر سے آئی تھیں جنہیں وہ ٹی وی کے شور اور پھر ماضی کی تلخ یادوں کی وجہ سے نہ سن سکا تھا۔۔مصطفیٰ نے ہرا بٹن دبایا مگر وہ اس سے زیادہ نہ سن سکا کہ جس بم دھماکے کی خبر وہ سن رہا تھا اس نے مصطفیٰ کی زندگی کو جیتے جی ختم کر دیا تھا ۔ دوسری طرف کوئی کہہ رہا تھا اس کے بیٹے کی بم دھماکے میں موت ہوگئی ہے ۔
اسے محسوس ہوا اس کے گالوں سے پانی پھسلتا ہوا اس کے ہاتھوں پر گررہا ہے۔ وہ آنسو جو تب نہ نکلے تھے آج تمام بند توڑ کر آزاد ہو چکے تھے ۔آزادی کے واقعات سے زیادہ آج کے حالات تلخ تھے جنہوں نے اسے رونے پر مجبور کردیا تھا ۔ تب قربانیاں امان والے ملک کے لیے دیں تھیں اور آج کی قربانی ایک بار پھر سوالیہ نشان چھوڑ گئی تھی۔
آج اس کے د ل سے نکلنے والی ایک آہ کے ساتھ لفظ پاکستان پائندہ باد بھی تھا۔

Facebook Comments

محسن چغتائی
جامعہ کشمیر میں قانون کا طالبعلم ہوں. مختصر کہانیوں کے زریعےمعاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں. لکھنا سیکھ رہا ہوں...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply