الیکشن اور سروے۔۔۔۔تجزیاتی نقطہ نظر سے /اجمل شبیر

اسی مہینے پچیس جولائی کو الیکشن ہورہے ہیں،سروے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں کہ پچیس جولائی کو ہونے کیا جارہا ہے ؟سیاست کو سمجھنے والے یہ تو جانتے ہیں کہ الیکشن اور سروے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے تین سروے آگئے ہیں۔جنگ گروپ کے تحت دو سروے کئے گئے ہیں۔ایک سروے پلس کنسلٹنٹ نے کیا ہے جبکہ دوسرا گیلپ نے کیا ہے ۔ان دونوں سرویز میں ملک گیر تین ہزار افراد کی سیمپلنگ کی گئی ہے کہ وہ انتخابات کو کس انداز میں سوچ رہے ہیں؟پلس کنسلٹنٹ کے سروے کے مطابق مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی مقابلہ برابر چل رہا ہے ۔پلس کے مطابق اس وقت پورے پاکستان میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک 27فیصد ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بنک 30 فیصد ہے ۔تین پوائنٹ کا فرق ہے ،پی ٹی آئی تین پوائنٹ آگے ہے ۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک پورے پاکستان میں 17 فیصد ہے ۔جبکہ گیلپ یہ کہہ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک 26 فیصد ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بنک 25 فیصد ہے ۔یہاں پر مسلم لیگ ن ایک پوائنٹ آگے ہے ۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک 16 فیصد ہے ۔institute of public pinion research کی جانب سے بھی ایک سروے کیا گیا ہے ۔یہ ملک گیر سروے نہیں ہے بلکہ یہ سروے پنجاب تک محدود ہے ۔پنجاب کی 141 سیٹوں کے حوالے سے یہ سروے کیا گیا ہے ۔اس سروے میں دو لاکھ سے زائد لوگوں سے بات کی گئی ہے ۔پنجاب کی 141 سیٹوں میں ہر حلقے سے ڈھائی ہزار لوگوں سے بات کی گئی ہے ۔یہ سروے ایک ماہ پرانا ہے مطلب یہ سروے 15 اپریل سے 2 جون کے درمیان کیا گیا تھا ۔آئی پی او آر سروے کے مطابق مسلم لیگ ن کی پنجاب میں مقبولیت 51 فیصد ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں مقبولیت 30 فیصد ہے ۔یہاں پر مسلم لیگ ن 21 پوائینٹس سے آگے جارہی ہے ۔ان کے مطابق 2013 میں پی ٹی آئی کی مقبولیت پنجاب میں 19 فیصد تھی جو اب 30 فیصد ہو گئی ہے ۔پنجاب ایک بہت بڑا صوبہ ہے جہاں دس سے گیارہ کروڑ افراد رہتے ہیں ۔اس سروے میں کہا گیا ہے کہ سنٹرل پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک 55 فیصد ہے جبکہ یہاں پر پی ٹی آئی کا ووٹ بنک 30 فیصد ہے ۔جبکہ ویسٹرن پنجاب یعنی میانوالی اور بھکر وغیرہ میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک 52 فیصد ہے جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک 31 فیصد ہے ۔انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین سروے کے مطابق مسلم لیگ ن کا جنوبی پنجاب میں ووٹ بنک 49 فیصد ہے جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک 29 فیصد ہے ۔مبصرین کی طرف سے بھی کچھ گیس ورک سامنے آرہا ہے ،یہ گیس ورک میری نگاہ میں بہت اہم اور دلچسپ ہے ۔مسلم لیگ ن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں 126 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی ،اس بار یعنی پچیس جولائی کو مسلم لیگ ن زیادہ سے زیادہ 80 سیٹیں لے سکتی ہے ۔اس کی وجہ محکمہ زراعت اور دوسرے پریشرز بتائے جارہے ہیں۔دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو 28 سیٹیں ملی تھی ،مبصرین کہتے ہیں کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی 70 سے 80 سیٹیں لینے میں کامیاب رہے گی ۔دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 32 سیٹیں ملی تھی ،اس مرتبہ پی پی پی 40 سیٹیں نکال لے گی ۔اب میجک ہندسے یعنی 137 تک پہنچنے کے لئے مسلم لیگ ن یا پاکستان تحریک انصاف کو مزید 60 سیٹوں کی ضرورت ہے اور پیچھے 75 سیٹیں باقی بچتی ہیں ۔یہ تمام سیٹیں چھوٹی موٹی پارٹیوں کے پاس جائیں گی یعنی کچھ سیٹیں جیپ والوں کی ہوں گی ،کچھ آپ جناب والوں کی ہوں گی ،پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کو 137 کے میجک ہندسے کے لئے ساٹھ سیٹوں کی ضرورت پڑے گی ۔اس حوالے سے مبصرین کہتے ہیں کہ زرداری صاحب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تقریبا 40 سیٹیں ہوں گی ۔اس کے علاوہ فضل الرحمان گروپ ،نیشنل عوامی پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پاس بھی کچھ سیٹیں ہوں گی ،جن کا اہم کردار بن سکتا ہے ۔مبصرین کے مطابق جس طرح 25 جولائی کا الیکشن ہونے جارہا ہے ،اس سے واضح محسوس ہورہا ہے کہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آسکتی ہے ۔جس میں حکومت کمزور ہو گی لیکن اپوزیشن مضبوظ ۔مبصرین کے مطابق اگر وفاقی حکومت کے مخالف سندھ اور پنجاب کی حکومتیں بن گئی تو معاملات مزید گھمبیر ہوجائیں گے ۔یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس مرتبہ پچھلے الیکشن والا جوش و خروش نظر نہیں آرہا ہے۔پچھلے الیکشن میں دہشت گردی ایشو تھا ۔اس مرتبہ محکمہ زراعت کی الیکشن سنڈھی کام دیکھائے گی ۔کیونکہ سنا ہے پنجاب کے ڈھیر سارے کھیتوں میں یہ سنڈھی پھیلا دی گئی ہے ۔یہ تو تھے اندازے اور کچھ خدشات ،اب دیکھتے ہیں پچیس جولائی کو کیا ہوتا ہے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply