انسان بڑا بے صبرا واقع ہوا ہے۔یوں تو اس کی بے صبری کے مناظر کسی علاقہ اورموسم کی حدود وقیود سے بالاتر ہوکر ہر جگہ ہر وقت دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن گرمی کا موسم اس کا بدترین منظر ہے جس میں بے صبری کے وہ مناظردیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانیت کنارہ کش ہوکر تماشہ دیکھنے لگ جاتی ہے ۔ ہر شخص غصے و جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آتاہے۔لیکن صاحب ! انسان جائے تو کدھر جائے؟ اس بن بلائے مہمان کا کیا کرے جو ہر سال بلاناغہ آدھمکتا ہے۔ بھلا اس غضب کی گرمی کا کیسے مقابلہ کیا جائے جو نہ کسی جوانی کی لاج رکھتی ہے ،تو نہ کسی بوڑھے کی پیرانہ سالی پر ترس کھاتی ہےاور نہ ہی صنفِ نازک کی نزاکتِ طبع کا اسے کوئی پاس ہے۔بے چاریوں کو کیسی خفت کا سامنا ہوتا ہے جب حدتِ گرمی و کثرتِ پسینہ کسی حسینہ کے مصنوعی حسن کی چادر ہٹاکراچانک اس کے چہرےکے حقیقی خدوخال کی طرف نشاندہی کردیتاہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف حقوقِ نسواں کے علمبرداروں نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ روزہ سے یاد آیا جب سے ہم روزہ رکھنے کے مکلف قرار پائےہیں گرمی کو ہر سال بلاناغہ رمضان کا استقبال کرتے پایا ہے ۔ خدا معلوم کس نے یہ ذمہ داری اس کے ذمہ لگائی !
جی بالکل خالقِ کائنات ہی تبدیلی موسم کے راز جانے کہ کس میں کیا حکمتیں مخفی ہیں لیکن ہمیں تو لگتا ہے کہ ہماری اپنی ہی آرزو کی خدا نے تکمیل کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ہم نے عقل وشعور کی گہماگہمی میں قدم نہیں رکھا تھا ۔سردی کی ایک ٹھٹھرتی شام کو گرم لحاف اوڑھے ،کمبل کی قیدوبند میں جکڑے، لکڑی سے جلنے والے چولہے کے گرد حلقہ بنائے ہاتھ پاؤں سینک رہے تھے ۔روزے دارافطاری کا سامان لئے صدائے موذن کی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ادھر ابا جی ہمیں اپنے زمانہ طفولیت کے موسمِ گرما کے روز وں کا احوال سنارہے تھے کہ وہ سارا دن تیز دھوپ میں پانی میں نہاتے، کھیلتے کودتے پھرگیلے کپڑوں سمیت درخت کی چھاؤں تلے ٹھنڈی ہواؤں میں میٹھی نیند سوجاتے تھے۔ جب سورج ڈھل جاتا تو افطاری کے دسترخوان پر ٹھنڈی لسی اور دیگرٹھنڈے میٹھے مشروب منتظر ہوتے۔اباجان کی ٹھنڈی گرم باتوں کا مرکب سن کر ہمارے سینوں میں غلطی سے(جس کا احساس اب ہورہاہے) بچگانہ خواہش اٹھی کہ کاش ہمیں بھی موسمِ گرما کا روزہ نصیب ہو!خدا جانے کب سردی کے لباس کے سابقوں اور لاحقوں سے جان چھوٹے اورلباسِ گرما زیب ِتن کرکے اچھلتے کودتے ٹھنڈی گرمی کے روزوں کا لطف اٹھا ئیں ! بس وہ دن تھا اور آج کا دن کہ ہر رمضان گرمی کی گرما گرمی کی نظر ہواجارہاہے۔
پھر اتفاق دیکھئے کہ گرمی سےہمارا رشتہ ہمارے عدم سے وجود میں آنے سے بھی پہلے کاہے۔چنانچہ ہماری پیدائش ضلع جیکب آباد کی ہے جہاں گرمی کاپارہ 52درجہ سےبھی آگے چلا جاتاہے۔چارپائی کی بانہی سے بندھا اماں جی کا دوپٹہ زمانہ طفولیت میں ہمارا بستر تھا۔ہاتھ والا پنکھا ہمارا کھلونا تو پانی سے بھرا ٹب ہمارا سوئمنگ پول ٹھہرا۔جب سکول بھیج دئیے گئے تو شدید گرمی میں دو کلو میٹر کی مسافت پیدل طے کرکے سکول جانا پھر دوپہرکے دو بجے چلچلاتی دھوپ تیز لو سے مقابلہ کرکے گھر پہنچتے تو بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوجاتے ۔ اللہ سلامت رکھے اماں جان کو جو روزانہ بلاناغہ اپنے دوپٹے کا گیلا کنارہ لیے ہماری منتظر رہتیں جس سے وہ حدتِ گرمی کو کم کرنے کی کوشش کرتیں چونکہ صبح کے بنے ہوئے سالن میں دوپہرکو گھی کی تہہ جم ہوچکی ہوتی تو دوبارہ لکڑیاں اکٹھی کرنے ، چولہا جلانے کی بجائے سالن کو گرم کرنےکیلئے اسے صحن میں دھوپ کی نظر کردیاجاتا۔ یقین جانیے بس پانچ منٹ کی بات ہوتی کہ سالن ابلنے لگتااور ہاتھ میں کپڑا لئے بنا برتن کو پکڑنا مشکل ہوجاتا ۔
یوں گرمی کے رحم وکرم میں پروان چڑھنے کے بعد طلبِ علم کی پیاس کراچی لے گئی یہاں بھی گرمی نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا لیکن آبائی وطن کی بہ نسبت اسے غنیمت جانا ۔پھر نہ چاہتے ہوئے ضابطے کی طلبِ علم کا زمانہ بیت گیا اور کراچی کو الوداع کہنا پڑا اور اب گرمی کا مارا ہوا یہ راقم اب اپنے مقدر کی روزی روٹی کے حصول کی غرض سے لاہور میں مقیم ہے ! یہاں آکر معلوم ہوا کہ لاہور اور گرمی کا رشتہ شاہ جہاں کے عہد سے بھی قدیم اور مضبوط ہے۔جس کا اندازہ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے کی تعمیری خدو خال کو دیکھ مزید پختہ ہوگیا ۔بہرحال اب تو ہمارے دل میں یقین سا بیٹھ گیا ہے کہ گرمی سے مفرنہیں ۔ یہ ہماری زندگی کا جزء لا ينفك ہے ۔اس اعتقادکے بیٹھ جانے کے بعد اب گرمی کی حدت میں وہ شدت محسوس نہیں ہوتی ۔کیونکہ گرمی جتنی بھی پڑے وہ موافقِ توقع قرار پاتی ہے۔اگرآپ بھی یہ یقین دل میں بٹھالیں تو سانس اکھڑنے تک گرمی کی حدت میں واضح کمی محسوس کریں گے۔
لیکن ذرا ٹھریئے ! اگر بات سانس اکھڑنے تک کی ہوتی تو گوارہ تھا لیکن ہماری نظر ایک حدیث پاک پر پڑی تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی بلکہ’’ کھسک گئی‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔حدیث ہے کہ روزِ جزا سورج نیزے کی مسافت پرآ ن کھڑا ہوگا اور ہر شخص اپنے گناہوں کے حجم کے بقدر پیسنے میں ڈوبا ہوگا۔ایک اور حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی گرمی جہنم کی مرہونِ منت ہے۔ جہنم جب باہر کو سانس لیتی ہے تو دنیا والوں کو گرمی سے سابقہ پڑتاہے۔۔۔ اب تک تو ہم دارِ فناکی گرمی کا رونا رو رہے تھے ۔ جب روزِ جزا اور دارِ بقا کی گرمی کا احوال معلوم ہواتوہاتھ سےقلم چھوٹ گیا ۔ نگاہیں فلک کی نیلی چھت پر اٹک گئیں۔دستِ التجا بلند ہوا اور زبان لڑکھڑائی ، خداوندا!اب کدھرِ جائے تیرا بندہ ! پارسا توہم ٹھہرے نہیں کہ حشرکی گرماگرمی اور جہنم کی گہماگہمی سے بلا حساب چھٹکارا پاتے ۔اب اگر تیرا فضل شاِمل حال نہ رہا تو ونیاوی گرمی کی تاب نہ لاسکنے والا تیرا بندہ اخروی گرمی کا کیسے سامنا کرے گا !رحم رحم! خدا یا رحم فرما!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں