سات جولائی کو جنوبی خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ملک شیریں کے قافلے پر حملہ کرکے ملک شیریں سمیت 7 افراد کو زخمی کیا گیا۔ ملک شیریں کا تعلق ایم ایم اے سے ہے۔ گیارہ جولائی کو منگل کی شب پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجہ میں پی کے 78 سے اے این پی کے امیدوار ہارون بلور سمیت 21 افراد شہید اور 62 سے زائد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح 13 جولائی کو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 35 سے متحدہ مجلسِ عمل کے امیدوار اکرم درانی پر بنوں میں حملہ کیا گیا، اس حملے میں اکرم درانی تو بچ گئے، دیگر چار افراد شہید اور بیس سے زائد زخمی ہوئے، 13 جولائی کو ہی بلوچستان میں ہونے والے خودکش دھماکے میں سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے بھائی اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 32 سے امیدوار سراج رئیسانی سمیت 128 افراد کو شہید جب کہ 150 سے زائد کو زخمی کیا گیا۔
یہ سب ایک ایسے ملک میں انتخابات کے دوران ہو رہا ہے، جو دنیا کا واحد اسلامی نظریاتی ملک ہے، جس کی فوج دنیا کی بہترین فوج اور جس کے دفاعی اداروں کے پاس ایٹم بم تک موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر انتخابی مہم بہترین طریقے سے نہیں چلے گی تو عوام ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں نکلیں گے، جب عوام کی شمولیت کم ہوگی تو انتخابات کا نتیجہ بھی کمزور رہے گا اور ایسے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی، وہ بھی کمزور ہی ہوگی۔ اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری سرگرمیوں کے دشمن کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے ریاستی ادارے ان پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ ایک نمبر کے مانے ہوئے وحشی درندوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکال کر انہیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جب ہم ایک طرف تو دہشت گردوں کے خلاف مختلف قسم کے آپریشن کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف عملاً دہشت گردوں کو انتخابات میں شریک ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود ہی دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

دہشت گرد چاہے جتنے بھی بے گناہ لوگوں کو قتل کر لیں، انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں اور انہیں اب یقین ہے کہ آج نہیں تو کل وہ اس ملک کی اسمبلیوں تک پہنچ جائیں گے اور یوں وہ اس ملک کی تقدیر کے بلا شرکت غیرے مالک بن جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے سرکاری ادارے اِن خودکش دھماکے کرنے والوں کو نہیں پہچانتے اور یا پھر پہچاننے کے باوجود ان سے نظریں چرا رہے ہیں۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کے لئے بھی سوچنے اور سمجھنے کا مرحلہ ہے کہ دہشت گرد کسی بھی صورت ملک و قوم کے لئے مفید واقع نہیں ہوسکتے اور وہ کسی بھی محب وطن گروہ یا پارٹی کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ چلتے چلتے ایک جملہ یہ بھی لکھتا چلوں کہ بلوچستان کے شہر مستونگ کے قریب انتخابی جلسے کے دوران خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہونیوالے نوابزادہ سراج رئیسانی بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 35 میں اپنے بھائی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نوابزادہ اسلم رئیسانی کے مقابلے میں ہی امیدوار تھے۔[1]
یہ درست ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے، لیکن یہ بھی ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کون کرتا چلا آرہا ہے۔ کہیں بادشاہت کی طرح دہشت گردوں کی بیساکھیوں کا سہارا لینے والوں کی سیاست بھی تو بانجھ نہیں ہوتی اور کہیں سیاسی معرکے میں اپنا ہی خون سفید تو نہیں ہوگیا۔ جو شخص اقتدار کے نشے میں دوسروں کی لاشوں پر ٹشو پیپرز کے ڈبے بھیجنے کا کہہ سکتا ہے، وہ اقتدار کے حصول کے لئے شاید کچھ بھی کرسکتا ہے۔ سراج رئیسانی سے ہمدردی اپنی جگہ لیکن اسلم رئیسانی کا چہرہ اپنی جگہ توجہ کا طالب ہے۔ آخر ہم کب تک اسی طرح بیٹھے رہیں گے اور قاتلوں کی شناخت سے انکار کرکے طالبان و داعش کے سائے کو پیٹتے رہیں گے!؟؟؟ ہمیں اب تو سمجھ جانا چاہیے کہ کون لوگ اس ملک میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں، ان کی طاقت سے اپنے مخالفین کو کچل رہے ہیں اور ان کے نام فورتھ شیڈول سے نکلوا کر انہیں اسمبلیوں میں بھیجنے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں