پرانا چورن۔۔۔۔ علی اختر

بچپن سے ایک قصہ سنتے آئے ہیں کہ  ایک مسافر جو  جنگل سے گزر رہا ہے۔ سنسان و بیابان جنگل سے ۔ ۔ہُو کا عالم ہے کہ اچانک “میں میں ” کی آواز سے چونک جاتا ہے ۔ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو ایک معصوم بکری کا بچہ دکھائی  دیتا ہے ۔ دل موم ہو جاتا ہے اور اس میمنے کو کسی محفوظ مقام پر پہنچانے (نا کہ  دم پخت بنانے) کے خیال سے گود میں اٹھا لیتا ہے۔ اب جو بیس قدم اٹھاتا ہے تو پاتا ہے کہ  میمنا ، میمنے سے بتدریج بکری، گدھے ، گھوڑے اور بعد ازاں بھینسے کے وزن کا ہو چکا ہے ۔ گھر سے ناک کی سیدھ میں چلنے کی قسم کھا کے نکلا تھا سو اب تک سامنے دیکھ کر ہی چلتا رہا ،پر وزن برداشت سے باہر ہونے پر قسم توڑتا ہے اور جو میمنے پر نظر پڑتی ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ  میمنا تو اسکی گود میں ہی معصوم صورت بنائے اسکی جانب احسان مند نظروں سے دیکھ رہا ہے جبکہ اسکے قدم مبارک اسی مقام مقدس پر پھنسے ہیں جہاں سے اسے اٹھایا گیا تھا اور کھنچتے چلے جا رہے ہیں۔ مسافر اس پیچیدہ سی سادہ صورت حال کو فوری سمجھ جاتا ہے کہ جس معصوم بکری کے بچے کو اس نے مدد کی نیت سے اٹھایا دراصل چھلاوا ہے جو مسافروں کو ڈراتا ہے۔ وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں بیہوش ہونے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور اگلے پہر آنے والے مسافر جو اسے راہ میں بیہوش پاتے ہیں کو یہ عبرتناک واقع سناتا ہے۔

حضرات یہ واقع آپ نے بھی کہیں نہ کہیں سن رکھا ہوگا ۔ درج بالا واقعہ میں ملنے والا منحوس میمنا رنگ و نسل اور زمان و مکاں کے فرق کے ساتھ معلوم تاریخی کتب کے   مطابق 1200 قبل مسیح سے مسافروں کو الو بنا کر ڈرا رہا ہے۔ اور مسافر بھی ابھی تک اس چھلاوے کے چکر میں آکر اسے گھوڑے، گدھے، خچر یا کچھ میسر نہ ہو تو گود میں اٹھا لیتے ہیں اور بعد میں بیہوشی پر قصہ ختم کرتے ہیں۔

اب سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ  مذکورہ بالا قصے میں چھلاوہ ، مسافروں کو بیوقوف بنانے کے واسطے ایک ہی تیکنیک باربار، ہر بار لگاتار استعمال کرتا چلا جارہا ہے ۔ اس ایک ہی تکنیک سے کئی  لوگوں کو ہر بار بیوقوف بنانے کے عمل کو کراچی کی لوکل لینگویج میں “پرانا چورن بیچنا” کہا جاتا ہے۔

مثلاً اگر کوئی  کراچی کا لونڈہ جنگل سے گزرے اور میمنا دیکھے تو کہے گا ۔ ” ابے یہ پرانا چورن کب تک بیچے گا” یا ” ابے ڈیش کے ڈیش تو پھر یہ پرانا چورن بیچ رہا ہے” کہہ  کر آگے نکل جائے گا۔

یہاں میں پرانے چورن کی ایک خاصیت بیان کر دوں کہ  گو ہزاروں لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ  یہ چورن پرانا ہے لیکن جانتے بوجھتے یہ لوگ نہ صرف اسے خریدتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔

آپ لوگ یقیناً سوچ رہے ہونگے کے اسکے خریدار جاہل گنوار، عقل سے عاری لوگ ہوتے ہونگے۔ نہیں صاحب، پڑہے لکھے مہذب معاشروں میں بھی یہ چورن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ ہالی وڈ کی فلموں پر ہی نظر ڈالیں تو ایک اصطلاح “زومبی” آپ کو ہر سال کئی  فلموں میں نظر آئے گی ۔ ان سب فلموں کی کہانی میں کچھ شر پسند ایک ایسا وائرس تخلیق کر لیتے ہیں جسکا شکار انسان ہاتھ پھیلا کر لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے باقی ماندہ نوع انسانی کو کاٹنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے اب اگر کسی کو دانت ٹچ کردے تو وہ بھی اسی کی طرح ہو جاتا ہے ۔ اس طرح یہ وائرس دانت بہ دانت پھیلتا چلا جاتا ہے ۔

بہت جلد ان “زومبیوں “کی تعداد لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے ۔ پھر ایک کسرتی جسم والا جوان ایک بغل میں آتشیں اسلحہ اور اور دوسرے میں فن حرب سے آشنا اور فن ستر پوشی سے نا آشنا،  چاروں موسموں  میں ایک چھوٹی چڈی اور لینتھ سے چھ انچ کم ٹی شرٹ کے علاوہ کچھ نہ پہننے  کی قسم کھائی ہوئی  لیکن پھر بھی محترم لالہ عارف خٹک کی مانند باحیا دوشیزہ دوسری بغل میں دابے میدان میں آتا ہے اور دنیا سے اس وائرس کا خاتمہ کر ڈالتا ہے۔

آپ آنکھیں بند کرکے ان تمام فلموں کی  سٹوری پتہ  کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی ساری دنیا ہر سال یہ پرانا چورن نئی  پیکنگ میں خریدتی ہے اور خریداروں کا تعلق امریکہ جیسے ملک میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

“ڈریکولا” ، “وئیر وولف”اور سب سے بڑھ  کر وہ چپچپی گندی سی کیڑے نما خلائی مخلوق جو اپنا گولہ چھوڑ کر ہمارے گولہ پر قبضہ کر نے کی نیت سے آتی ہے اور جب سے کیمرہ ایجاد اور سینما قائم ہوا ہے منہ کی کھا کر، اربوں کا نقصان کرا کر، ہزاروں بندے مروا کر واپس جاتی ہے۔۔ کی فلمیں سب کی سب پرانا چورن کی کیٹیگری میں شامل ہیں۔

ویسے خلائی مخلوق سے یاد آیا ہمارے ملک پاکستان میں آج کل سلیکشن (غلطی بر گردن مدیر) کا دور دورہ ہے۔ یہاں بھی ملک کی تخلیق سے اب تک کئی  پرانے چورن نئی  پیکنگ میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں ۔ ایک دفعہ  تو چورن بیچنے والوں نے چورن کے چکر میں ملک ہی کے دو ٹکڑے کروا دیئے تھے۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ مشرقی پاکستانی جن کی غذا کا بیشتر حصہ مچھلی پر مشتمل تھا اور مچھلی میں موجود بعض لحمیات بادام سے ملتے جلتے تھے سو انہوں نے چورن خریدنے سے صاف انکار کر دیا اور اپنا حصہ الگ کر لیا۔ اب مغربی حصہ میں بادام اس وقت بھی کافی مہنگا تھا تو اکثریت نے چورن ہاتھوں ہاتھ لیا۔

پھر بھی بس نہ ہوئی  اور چورن بیچنے والوں نے یہ پرانا چورن کئی  مرتبہ پیکنگ تبدیل کرکے مارکیٹ کیا اور ہاتھوں ہاتھ بکا۔ خود راقم کی زندگی میں بھی یہ چورن کبھی شیر والی پیکنکگ میں تو کبھی سائیکل اور کتاب والی پیکنگ میں بیچا گیا اور ظلم تو یہ کہ بک بھی گیا۔

آج بھی چورن فروش دو تین مختلف برانڈز کے ساتھ مارکیٹ میں موجود ہیں جس میں ڈولفن اور بلے والی پیکنگ قابل ذکر ہیں۔ گو اب لوگ اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ  تقریباً  سبھی کو پتا ہے کہ  یہ چورن ایکسپائری کراس کر چکا ہے۔ بلکہ کبھی جانب دار عدالتی فیصلہ کبھی امپائر کی انگلی تو کبھی ریحام زدگی کی صورت میں پیکنگ اس قدر خستہ ہو چکی ہے کہ  کوئی  اندھا بھی ٹٹول کر بتا دے کہ “ارے یہ تو وہی پرانا چورن ہے” بلکہ اب تو چورن فروشوں کے اپنے گھر میں انکے خلاف نعرے بازی ہو رہی ہے ۔

لیکن آفرین ہے چورن فروشوں پر جو اسے اب بھی بیچ رہے ہیں، خود چورن پر اور دلی ہمدردی ان کے ساتھ جو اسے آج ہاتھوں election

Advertisements
julia rana solicitors

ہاتھ لے رہے ہیں۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply