سوشل میڈیا نہ صرف مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ افراد اور افکار کو بالواسطہ جاننے ، سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ ایک ہی طبقہِ فکر کے لوگوں کو اپنی فکر کے لوگوں کی مختلف اقسام سے بھی شناسائی کا سبب بنتا ہے۔
جیسے کہ ایک عام اور تھوڑا سا آزاد خیال بندہ جو مذہبی لوگوں کے چھوٹے چھوٹے (اس کے نزدیک) اعتراضات سے تنگ ہے مثلاً مخلوط نظامِ تعلیم،عورتوں کا مردوں کیساتھ کام کرنا
ایسا شخص جب سوشل میڈیا پر آزاد خیال لوگوں کو دیکھتا ہے تو اسے سمجھ آتی ہے کہ میرے طبقہِ فکر کا تو بیڑہ ہی غرق ہوا پڑا ہے، بات مخلوط تعلیم سے تو کہیں آگے نکل چکی ہے، مختلف ناموں سے منسوب طلبہ کی مخلوط پارٹیز اور ٹوورز، آفس سٹاف کو ملنے والے اداراتی تفریحی دورے اور کبھی کبھی سب کا خود سے اہتمام کرکے بلا تمیز جنس اکٹھے آنا جانا یہ اس مخلوط نظام کی مزید ابتدائی خرابیاں ہیں جسے دیکھ کر ایک عام آزاد خیال چونک جاتا ہے ۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف جس کیلئے یہ تمہید باندھی گئی
میں الحمدللہ آزاد خیال نہیں بلکہ راسخ العقیدہ مسلمان ہوں، سوشل میڈیا پر کچھ سالوں سے متحرک بھی ہوں اور اس سارے عرصے کے دوران اپنی فکر کی مختلف اقسام سے واسطہ بھی رہا، اور میں بھی اول الذکر آزاد خیال بندے کی طرح چونکتا رہا کہ یہاں تو بیڑہ ہی غرق ہوا پڑا ہے، وہ کیسے؟ آئیے کچھ تجربات آپ کیساتھ بانٹتا ہوں ۔
بھینسا، موچی اور ایسے ہی کچھ اور پیجز پر دن رات گستاخیاں کی جاتی تھی، اچانک کچھ بلاگرز کی گمشدگی کی خبر پھیلی تو سوشل میڈیا اور کچھ ٹی وی چینلز پر ان بلاگرز کو ان پیجز کا ایڈمن بتایا جانے لگا، ٹی وی چینلز پر ان کی گمشدگی کو اختیاری گمشدگی ظاہر کیا جانے لگا، سوشل میڈیائی مجاہد بضد تھے کہ ان گستاخوں،ملعونوں کو ہمارے مقتدر اداروں نے ہی اٹھایا کہ اب یہ گستاخ بچ نہیں سکیں گے
چند دن سوشل میڈیا اور کچھ چینلز پر ان کی تصاویر کو بگاڑ کر خیالی شیطان یا دجال کا روپ دے کر چلایا گیا، اسلامیان پاکستان نے مقتدر اداروں کے حق میں لمبے لمبے کالم لکھے، خراجِ عقیدت پیش کئے، عامر لیاقت نے اپنے اندر چھپے انویسٹی گیٹو جرنلسٹ کو باہر نکالا اور ان گستاخوں کو انڈیا میں چھپا ہوا ثابت کیا، اس بھونڈے استدلال کو بھی محب وطن پاکستانیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
مختصر یہ کہ کچھ وقت کے بعد وہ بلاگرز چھوڑ دیئے گئے، نہ تو ان پر توہینِ رسالت ثابت ہوئی اور نہ ہی ان کا گستاخانہ پیجز سے کوئی تعلق نکلا، غیرت مند اسلامیان پاکستان نے نہ تو اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگی کہ ہم نے توہین رسالت و مذہب کے جو جھوٹے الزامات لگائے یااللہ ہم شرمندہ ہیں اور توبہ کرتے ہیں، نہ ہی مذکورہ چینلز نے ایسا کچھ کیا ،رہی بات ان بلاگرز کے جرم کی اور انہیں اٹھانے والوں کے مقصد کی تو وہ سب جانتے ہیں کہ انکا جرم اور اٹھانے والوں کا مقصد کیا تھا ۔
بھینسا، موچی و دیگر پیجز پر ہونے والی گستاخیوں کا ہی کیس اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت صدیقی کی عدالت میں چلا، جج صاحب نے آئی ٹی منسٹری، وزارتِ داخلہ اور خفیہ اداروں تک کی دوڑیں لگوائی، ہم نے کہا کچھ نہیں نکلنا سرکار، اور نہ ہی اس میں سے کچھ نکالنا کسی کا مقصد ہے، یار لوگ گلے کو آنے لگے اور ہمیں جان سے زیادہ ایمان کے لالے پڑ گئے، کیس چلتا رہا، کچھ نکلا اور نہ ہی کچھ نکالنا مقصد تھا، مختصر یہ کہ بھینسے بھی نہ پکڑے گئے، کیس بھی چلتے رہے، خبریں بھی بنتی رہی، سوشل میڈیا پر اونرشپ بھی لی جاتی رہی، اور اچانک خاموشی۔۔۔۔
پھر اچانک ایک انہونی ہوگئی، جج موصوف نے مقتدر اداروں پر عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا الزام لگایا اور آن ہی آن میں مردِ مجاھد، عاشقِ رسول، کردار و گفتار کا غازی شوکت صدیقی بزدل اور ناموسِ رسالت کے مشن کا بھگوڑا قرار دے دیا گیا
اس سب کو دیکھنے کے بعد میں تو یہی کہونگا کہ بیڑہ ہی غرق ہوا پڑا ہے بھئی
شوکت صدیقی نے اگر ناموسِ رسالت کے کاز کو نقصان ہہنچایا تو آپ کو چاہئے تھا کہ اسی وقت سامنے لاتے کیوں کہ بات ناموس رسالت کی تھی کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا لیکن ادھر شوکت صدیقی نے مقتدر اداروں کیخلاف متنازع بات کی اور اُدھر آپ نے اس کے بارے میں انکشافات کردیئے، حضورِ والا آپ اپنا بتائیے آپ نے ناموس رسالت کے معاملے میں شوکت صدیقی کی اصلیت سامنے کیوں نہ لائی؟ آپکو شوکت صدیقی کی اصلیت تب ہی کیوں یاد آئی جب اس نے مقتدر اداروں کے بارے میں متنازع باتیں کی؟
یہ باتیں تب سے ذہن میں تھی جب شوکت صدیقی صاحب نے اداروں پر الزام لگایا اور جواباً ان کیخلاف ناموس رسالت کے کاز کو نقصان پہنچانے کے الزامات سامنے آئے مگر الیکشن میں مصروفیات کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں