عطارد ہمارے نظام شمسی کا سب سے اندرونی سیارہ ہے جو سورج کے گرد ایک چکر زمینی اعتبار سے 87.969 دنوں میں پورا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سورج کے گرد لگنے والے ہر دو چکروں میں عطارد اپنے محور کے گرد تین بار گردش کرتا ہے۔ چونکہ زمین سے عطارد ہمیشہ سورج کے قریب دکھائی دیتا ہے اس لیے عطارد کا مشاہدہ عموماًسورج گرہن کے دوران ہی کیا جاتا ہے۔ شمالی نصف کرے پر عطارد کو دیکھنے کے لیے غروب آفتاب کے فوراً بعد یا طلوعِ آفتاب سے ذرا قبل کا وقت مناسب ہوتا ہے۔عطارد کے بارے نسبتاً بہت کم معلومات موجود ہیں۔ زمین سے دوربین سے کیے جانے والے مشاہدات سے ہلال کی شکل کا عطارد دکھائی دیتا ہے تاہم زیادہ تفصیل نہیں دکھائی دیتی۔
عطارد کو جانے والے دو خلائی جہازوں میں سے پہلا جہاز میرینر دہم تھا جس نے 1974 سے 1975 کے دوران عطارد کے 45 فیصد حصے کی نقشہ کشی کی تھی۔ دوسرا جہاز میسنجر تھا جو عطارد کے مدار میں 17 مارچ 2011 کو داخل ہوا اور بقیہ حصے کی نقشہ کشی میں مصروف ہو گیا ہے۔ عطارد شکل میں ہمارے چاند سے مشابہہ ہے اور شہابیوں کے گرنے سے پیدا ہونے والے گڑھے یہاں بے شمار ہیں۔ اس کا اپنا کوئی قدرتی چاند نہیں اور نہ ہی کوئی خاص فضاء ہے۔ تاہم چاند کے برعکس اس کے اندر بہت بڑی مقدار میں لوہا پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا مقناطیسی میدان زمین کے مقناطیسی میدان کا محض ایک فیصد ہے۔اپنے چھوٹے حجم اور لوہے کے اندرونی ڈھانچے کے باعث عطارد بہت کثیف ہے۔ سطح کادرجہ حرارت منفی 183 سے 427 درجے تک رہتا ہے۔ سورج کی دھوپ والے حصے سب سے زیادہ گرم جبکہ قطبین کے نزدیک والے گڑھے سب سے سرد مقام ہیں۔ عطارد کے مشاہدات کے بارے ہمیں پہلی دستاویزات قبل از مسیح زمانے سے ملتی ہیں۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں یونانی ماہرینِ فلکیات کا خیال تھا کہ یہ سیارہ دراصل دو مختلف اجرامِ فلکی ہیں۔ایک جرمِ فلکی صرف سورج نکلنے اور دوسرا سورج کےغروب ہونے پر دکھائی دیتا ہے۔ عطارد کا انگریزی نام مرکری ہے جو یونانی تہذیب سے مستعار لیا ہوا ہے۔
اندرونی ڈھانچہ
عطارد ہمارے نظام شمسی کے چار اندرونی سیاروں میں سے ایک ہے جو ارضی سیارے کہلاتے ہیں۔اس کی ساخت پتھریلی ہے جو زمین سے مشابہہ ہے۔ ہمارے نظام شمسی کا یہ سب سے چھوٹا سیارہ ہے اور اس کا قطر 2,439.7 کلومیٹر ہے۔ عطارد دراصل ہمارے نظام شمسی کے کئی چاندوں سے چھوٹا لیکن انتہائی وزنی ہے۔ اس کا 70 فیصد حصہ دھاتی جبکہ 30فیصد سلیکیٹ سے بنا ہے۔ عطارد کی کثافت 5.427 گرام فی مکعب میٹر ہے جو زمین سے ذرا سی کم اور نظام شمسی میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے۔
عطارد کی کثافت کی مدد سے ہم اس کے اندر کے بارے جان سکتے ہیں۔ زمین کی کثافت کی سب سے بڑی وجہ اس کی کششِ ثقل کی وجہ سے اس کا سکڑنا ہے۔ اسی وجہ سے زمین کا انتہائی کثیف مرکزہ وجود میں آیا ہے۔ عطارد کا حجم انتہائی مختصر ہے اور اس کے اندرونی اجزاء اتنے سکڑے ہوئے نہیں۔ اس وجہ سے اس کے وزنی ہونے کا سبب اس کا بڑا مرکزہ اور اس میں لوہے کی کثرت ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق عطارد کا مرکزہ کل وزن کے 42 فیصد کے برابر ہے۔ زمین میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق عطارد کا مرکزہ مائع حالت میں ہے۔ مرکزے کے بعد 500 سے 700 کلومیٹر چوڑی تہہ ہے جسے مینٹل کہتے ہیں۔ یہ تہہ سیلیکٹس سے بنی ہے۔ میرنیر دہم سے حاصل ہونے والی معلومات اور زمین سے کیے گئے مشاہدات کی بناء پر یہ مانا جاتا ہے کہ عطارد کی بیرونی سطح 100 سے 300 کلومیٹر تک چوڑی ہے۔ عطارد کی سطح پر ڈھیروں تنگ سی سطحیں پائی گئی ہیں جو کئی سو کلومیٹر طویل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جب عطارد کا مرکزہ اور مینٹل سرد ہونے شروع ہوئے تو بیرونی سطح پہلے سے ٹھنڈی ہو چکی تھی اور اس کے سکڑنے کی وجہ سے اس طرح کی سطح وجود میں آئی۔ عطارد کے مرکزے میں ہمارے نظام شمسی کے دیگر اہم سیاروں کی نسبت بہت زیادہ لوہا پایا جاتا ہے۔
اس ضمن میں کئی نظریات بھی پیش کیے گئے ہیں۔ سب سے عام مانے جانے والے نظریئے کے مطابق عطارد میں دھات اور سیلیکٹ کی شرح ویسی ہے جیسی کونڈرائیٹ شہابیوں کی ہوتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ایک بہت بڑا شہابیہ عطارد سے ٹکرایا اور اس کی بیرونی سطح کا بہت بڑا حصہ دھول بن کر اڑ گیا اور مرکزہ اس کی جسامت کے حساب سے بہت بڑا باقی رہ گیا ہے۔ زمین کے چاند کے بارے اسی طرح کا نظریہ پایا جاتا ہے۔
ایک اور نظریے کے مطابق عطارد کا جنم شمسی بادل سے ہوا تھا جب سورج کی توانائی کے اخراج کی شرح مستحکم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت عطارد کا حجم آج سے دو گنا زیادہ تھا۔ تاہم جب سورج سکڑنا شروع ہوا تو عطارد کا درجہ حرارت 2٫500 سے 3٫500 کیلون (سینٹی گریڈ میں کیلون منفی 273 ڈگری) تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ درجہ حرارت 10٫000 ڈگری کیلون رہا ہو۔ اس انتہائی بلند درجہ حرارت سے عطارد کی سطح پر موجود زیادہ تر دھاتیں پگھل کر بخارات بن گئیں جنہیں شمسی ہوا اڑا لے گی۔ تیسرے نظریے کے مطابق شمسی بادل سے پیدا ہونے والی کشش سے عطارد کی سطح پر موجود ہلکے ذرات عطارد کو چھوڑ گئے۔ اس طرح ہر نظریہ عطارد کے بارے نیا خیال پیش کرتا ہے۔ اگلے دو خلائی مشن میسنجر اور بیپی کولمبو انہیں نظریات کی تصدیق کریں گے۔
سطحی جغرافیہ
بحیثیتِ مجموعی عطارد کی سطح ہمارے چاند سے بہت مماثل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مریخ جیسے بہت بڑے میدان اور کھائیاں موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ارضیاتی اعتبار سے عطارد کئی ارب سالوں سے ساکن ہے۔ چونکہ عطارد کے بارے ہماری معلومات 1975 میں میرینر خلائی جہاز کے اس کے پاس سے گذرنے اور اس کی سطح کے مشاہدے تک محدود ہے جس کی وجہ سے ارضی سیاروں میں عطارد کے بارے ہماری معلومات سب سے کم ہیں۔ حال ہی میں میسنجر نامی خلائی جہاز اس کے قرب سے گذرا ہے جس سے امید ہے کہ ہماری معلومات کافی بڑھ جائیں گی۔ البیڈو کی خصوصیات مختلف جگہوں پر روشنی کے انعکاس کی مختلف مقداروں کو ظاہر کرتی ہیں۔ عطارد پر چاند کی طرح بلند میدان، کٹی پھٹی سطحیں، پہاڑ، میدان اور وادیاں وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ 4 اعشاریہ 6 ارب سال قبل عطارد کی پیدائش کے بعد سے اس پر شہابیوں اور دمدار ستاروں کی بہت بڑی مقدار گرتی رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ عمل کوئی 3 اعشاریہ 8 ارب سال قبل دہرایا گیا تھا۔ اس عرصے میں بہت بڑی مقدار میں کھائیاں بنیں اور سیارے کی پوری سطح پر شہابیے گرے کیونکہ عطارد پر فضاء موجود نہیں جو رگڑ کی وجہ سے شہابیوں کی رفتار کو کم کر سکے۔ اس عرصے میں عطارد پر آتش فشانی عمل بھی زور و شور سے جاری تھا۔ میسنجر نامی خلائی جہاز جب اکتوبر 2008 میں اس کے قریب سے گذرا تو ہمیں عطارد کی سطح کے بارے مزید معلومات ملیں۔ عطارد کی سطح چاند یا مریخ کی نسبت زیادہ مختلف ہے۔
عطارد کا مدار
دیگر تمام سیاروں کے برعکس عطارد کا مدار منفرد ہے اور اسی وجہ سے سورج سے اس کا درمیانی فاصلہ چار کروڑ ساٹھ لاکھ سے لے کر سات کروڑ کلومیٹر تک رہتا ہے۔ اسے اپنے مدار میں ایک چکر پورا کرنے پر اٹھاسی دن لگتے ہیں۔ سورج سے گھٹتے بڑھتے فاصلے کی وجہ سے عطارد کا ایک دن اس کے دو سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ زمینی اعتبار سے 176 دن لگتے ہیں۔
زمین کی نسبت عطارد کا مدار سات ڈگری جھکا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے عطارد اوسطاً ہر سات سال بعد زمین اور سورج کے درمیان سے گزرتا ہے۔
عطارد کا محوری جھکاؤ تقریباً صفر ہے جس کی وجہ سے قطبین پر کھڑے ہوئے بندے کو سورج ہمیشہ افق کے پاس گردش کرتا دکھائی دے گا۔
بعض مقامات سے تو ایک ہی دن میں سورج طلوع ہو کر پھر واپس اسی جگہ غروب ہوتا اور طلوع ہوتا دکھائی دے سکتا ہے۔
بہت عرصے تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ عطارد سورج کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ جیسے زمینی چاند ہمیشہ زمین کی طرف ایک رخ کیے رہتا ہے، ویسے ہی عطارد کی ایک سمت سورج کی سمت رہتی ہے۔ تاہم 1965 میں ریڈار کے مشاہدے سے پتہ چلا ہے کہ یہ تین نسبت دو ہے۔ یعنی سورج کے گرد لگنے والے ہر دو چکر میں عطارد دو بار گھومتا ہے۔ ماہرین فلکیات کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ تھی کہ جب بھی عطارد کے مشاہدے کا بہترین وقت آتا، عطارد ہمیشہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی رخ پر دکھائی دیتا تھا۔ کمپیوٹر پر تیار کیے گئے ماڈل سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر سیاروں کی کشش کے باعث عطارد اپنے مدار پر تقریباً صفر (گول) سے 0.45 فیصد (بیضوی) میں کروڑوں سالوں میں گھومتا ہے۔ یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ اگلے پانچ ارب سال کے دوران ایک فیصد امکان ہے کہ عطارد زہرہ سے ٹکرا جائے۔
خلائی جہازوں سے کی گئی تحقیقات
زمین سے عطارد کو خلائی جہاز بھیجا جانا تکنیکی اعتبار سے کافی مشکل ہے کیونکہ خلائی جہاز کو سورج کی انتہائی زیادہ کشش پر قابو پانا پڑتا ہے۔ عطارد کو جانے والے خلائی جہاز کو 9 کروڑ 10 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے دوران سورج کی کشش پر بھی قابو پانا پڑتا ہے۔ عطارد کی محوری گردش کی رفتار 48 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جو زمین کی 30 کلومیٹر فی سیکنڈ سے زیادہ ہے۔ اس لیے جہاز کو اپنی رفتار میں کافی بڑی تبدیلی لانی پڑتی ہے جو کسی بھی دوسرے سیارے کو جانے والے جہاز سے زیادہ ہوتی ہے۔ سورج کی کشش کی وجہ سے خلائی جہاز کی رفتار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اسے عطارد کے گرد مدار میں داخلے یا عطارد پر اترنے کے لیے کافی زیادہ ایندھن جلانا پڑتا ہے تاکہ اترنے کی رفتار مناسب حد تک کم ہو جائے۔ چونکہ عطارد کی فضا نہ ہونے کے برابر ہے، سو پیراشوٹ وغیرہ کا استعمال ممکن نہیں۔ اس لیے عطارد پر جانے کے لیے درکار ایندھن کی مقدار پورے نظامِ شمسی سے باہر نکلنے کے لیے درکار ایندھن سے زیادہ ہے۔
میرینر دہم
عطارد کا چکر لگانے والا پہلا خلائی جہاز ناسا کا میرینر دہم تھا جو 1974-75 میں بھیجا گیا۔ اس جہاز نے زہرہ کی کششِ ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رفتار کو عطارد کے ساتھ جوڑا۔ اس طرح یہ جہاز پہلی بار ثقلی مدد استعمال کرنے والا اور ایک سے زیادہ سیاروں کو جانے والا جہاز قرار پایا۔ میرینر دہم نے پہلی بار عطارد کی سطح کی نزدیک سے تصاویر لے کر بھیجیں جس سے پتہ چلا کہ اس میں بہت زیادہ شہابی گڑھے اور جھریاں سی پائی جاتی ہیں جو شاید لوہے کے مرکزے کے ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے سے بنی ہوں گی۔ بدقسمتی سے میرینر دہم کی گردش کچھ اس نوعیت کی تھی کہ ہر مرتبہ ایک ہی پہلو روشن دکھائی دیا جس کی وجہ سے محض 45 فیصد حصے کی نقشہ بندی ممکن ہو پائی تھی۔
27 مارچ 1974 کو پہلی بار قریب سے گزرنے سے دو روز قبل میرینر دہم نے عطارد کے قریب غیرمتوقع بالائے بنفشی شعاعیں ریکارڈ کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس کا سبب پہلے عطارد کا فرضی چاند سمجھا گیا مگر بعد میں یہ پتہ چلا کہ دور واقع دہرے ستاروں کے نظام سے یہ شعاعیں آ رہی ہیں اور عطارد کا فرضی چاند ماضی کا قصہ بن گیا۔ خلائی جہاز تین مرتبہ عطارد کے قریب سے گزرا اور ایک مرتبہ اس کا فاصلہ عطارد کی سطح سے 327 کلومیٹر تھا۔ پہلے چکر پر آلات نے مقناطیسی میدان محسوس کیا۔ دوسرے چکر پر زیادہ توجہ تصاویر پر ہی رکھی گئی اور تیسرے چکر پر زیادہ سے زیادہ مقناطیسی پیمائش کی گئی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ عطارد کا مقناطیسی میدان زمین سے مماثل ہے اور شمسی ہواؤں کو اطراف میں پھینکتا ہے۔ تاہم اس مقناطیسی میدان کی ابتدا کے بارے کئی متبادل نظریات ملتے ہیں۔ 24 مارچ 1975 کو عطارد کے قریب سے گزرنے کے آٹھ روز بعد میرینر کا ایندھن ختم ہو گیا۔ چونکہ اب اس کے مدار کو درست طور سے قابو نہ کیا جا سکتا تھا، سو حکام نے اس کو کام روک دینے کا حکم بھیج دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میرینر دہم ابھی بھی سورج کے گرد چکر لگاتا ہوا ہر چند ماہ بعد عطارد کے پاس سے گزرتا ہے۔
میسنجر۔3
عطارد کی جانب ناسا کا دوسرا مشن میسنجر 3 اگست 2004 کو کیپ کینورل سے بوئنگ ڈیلٹا 2 راکٹ سے بھیجا گیا۔ اس نے اگست 2005 میں زمین، اکتوبر 2006 اور جون 2007 کو زہرہ کے چکر لگاتے ہوئے عطارد کے گرد اپنے مدار کی تصحیح کی۔ اس کا عطارد کے قریب سے پہلا چکر 14 جنوری 2008، دوسرا 6 اکتوبر 2008 کو اور تیسرا 29 ستمبر 2009 کو لگا۔ میرینر دہم سے پوشیدہ بقیہ نصف کرے کی نقشہ کشی میسنجر نے کی۔ 18 مارچ 2001 کو میسنجر خلائی جہاز نے عطارد کے گرد کامیابی سے بیضوی مدار اختیار کر لیا۔ اس مشن سے چھ بنیادی باتیں واضح ہونی تھیں: عطارد کی کثافت، اس کی جغرافیائی تاریخ، مقناطیسی میدان کی نوعیت، مرکزے کی بناوٹ، اس کے قطبین پر برف ہے یا نہیں اور اس کی معمولی سی فضا کہاں سے آئی۔ ان سوالات کے جوابات کے لیے میسنجر پر مطلوبہ آلات موجود ہیں۔
بپی کولمبو
یورپی خلائی ایجنسی جاپان کے تعاون سے بپی کولمبو نامی ایک مشترکہ مشن تیار کرر ہی ہے جس میں عطارد کے گرد دو خلائی جہاز ہوں گے، ایک کا کام سیارے کا نقشہ تیار کرنا ہوگا اور دوسرا مقناطیسی کرے کا مطالعہ کرے گا۔ روانگی کے بعد اندازہ ہے کہ 2019 تک یہ عطارد تک پہنچ جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ عطارد کے مشاہدے کے لیے زیریں سرخ، بالائے بنفشی، ایکس رے اور گیما رے کا استعمال بھی کرے گا۔

جاری ہے۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں