آئی اوبجیکٹ مائی لارڈ۔۔۔۔۔ رضوان ظفر گورمانی

ہمارے معزز چیف جسٹس نے حال ہی میں فرمایا ہے کہ جمہوریت کے نام پر ملک میں بادشاہت قائم ہو چکی ہے،گڈ گورنس کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ عوام کو اب اپنے حقوق کیلے نکلنا ہو گا

معزز شخصیت نے جو فرمایا ہو سکتا ہے وہ مکمل طور صحیح ہو مگر حضور اس بیان بازی سے پہلے اگر اپنی منجی تلے ڈانگ پھیر لیتے تو یقیناً جذباتیت کچھ اور طرح کی ہوتی

مائی لارڈ !! آپ کے منہ سے گڈ گورنس اور بادشاہت کی بات تب زیادہ اچھی لگتی جب آپ کی عدلیہ کی تاریخ عالیشان کارناموں سے بھری ہوتی۔ نظریہ ضرورت کے داغدار ماضی کے قصوں کو بھی اگر ایک طرف رکھیں تو بھی ہماری عدلیہ کی کارکردگی مثالی نہیں رہی۔ عدلیہ تحریک کی کامیابی کے اور نام نہاد جوڈیشل ایکٹیوزم کے بعد بھی ہم نے قاتلوں کو وکٹری کے نشانات بنا بنا کر عدالت سے باہر جاتے دیکھا، سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گردوں کو باعزت بری ہوتے دیکھا، دو بوتلوں اور سموسوں پہ سو موٹو لینے والی فعال عدلیہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن سے صرف نظر کرتے دیکھا۔ ہمارا یہ عدالتی نظام فوری اور سستے انصاف کے لئے کتنا فعال ہے اس کی اک مثال ہمیں حال ہی میں دیکھنے کو ملی جب سترہ سال جیل کاٹ کر اک ملزم پرلوک سدھار گیا اور اس کے سورگباشی ہونے کے بھی دوسال بعد ہماری فعال عدلیہ ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھ کر اس نتیجے پہ پہنچی کہ ملزم بے قصور تھا اور یوں اک مردے کے باعزت بری ہونے کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا گیا۔ مانا کہ انصاف کی دیوی اندھی ہوتی ہے مگر وہ اتنی سست اور لاپروا بھی ہو گی اس کا فدوی کو اندازہ نہیں تھا۔ یہ تو جب سینکڑوں کی تعداد میں انتہا پسند رہا ہونے لگے تو معلوم پڑا کہ فاضل جج صاحبان کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں اور ان کی جان کی حفاظت تو سب سے پہلے۔ لہذا جان کی امان کے لئے امن و امان کے دشمنوں سے رو رعایت نوشتہ دیوار ٹھہری کہ آخر ایک جج مافیاز سے کیسے ٹکر لے سکتا ہے۔

مافیا سے یاد آیا مائی لارڈ مافیا ایک مشہور لفظ ہے اور دنیا بھر میں ہر خاص و عام اس لفظ سے بخوبی واقف ہے۔ کرائم کو آرٹ کا درجہ اس تنظیم نے دیا اس لئے کرائم کی دنیا میں مافیا کا نام امر ہو گیا بلکہ کرائم اور مافیا ایک دوسرے کے مترادف بن گئے،مافیا اٹلی کے جنوبی جزیرے سسلی سے ابھری اور اس نے سسلی کو کنٹرول کر لیا اور رفۃ اس کے ساۓ جنوبی اٹلی تک پھیلتے گئے جنوبی اٹلی شمالی اٹلی سے زیادہ پسماندہ ہے اور شمالی اٹلی کا پسماندہ ترین علاقہ سسلی ہے۔

یورپ میں اٹلی ایک غریب ملک تھا اور لاکھوں اطالوی لوگوں نے یورپ اور امریکا کے ممالک کی طرف نقل مکانی کی اور اس میں مافیا کے رکن بھی تھے۔ مافیا کے اراکین نے امریکا پہنچ کر بروکلین کے علاقے میں پاؤں جماۓ نیویارک میں اس وقت بھی پاکستانی کمیونٹی ساتھ ہی رشین یوکرینین اور یہودی آبادی کا مرکز بھی اس علاقے کے ساتھ واقع ہیں۔ اس دور میں مافیا نے اپنے پنجے اطالوی امیگرنٹس کے گڑھ میں گاڑے، ان کے اپنے گن مین تھے جو دکانوں سے بھۃ وصول کرتے تھے، اب سے دس سال پہلے تک یہ غیر قانونی جؤا خانے چلاتے تھے، کرنسی اور خوب صورت عورتوں کے مساج گھر، منشیات کی سمگلنگ اور مختلف کرائم کا ایک نیٹ ورک قائم تھا۔ کتنا مضبوط تھا اس کا اندازۂ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس تو کجا ایف بی آئی جیسے طاقتور اور جدید ادارے کو اس کا قلع قمع کرنے کے بیس تیس سال تک جنگ لڑنی پڑی تھی گو ایف بی آئی وہ ادارہ ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کی طاقت سے امریکا کا صدربھی نہیں بچ سکتا۔ جان گاٹی بروکلین اس مافیا کا سربراہ تھا، ایف بی آئی بڑی مشکل سے گواہ تیار کرتی تھی اور چند دن بعد اس کی لاش ملتی تھی کہ اس کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا تھا۔ جان گاٹی خود عدالت میں میں جج سے کہتا تھا کہ تم مجھے کبھی سزا نہیں دے سکتے۔ امریکا جیسا طاقت ور ملک مافیا پر ہاتھ ڈال چکا تھااس کے باوجود ایف بی آئی جان گاٹی کو مجرم ثابت کرنے میں ناکام رہی، کیا اس لئے کہ جان گاٹی معصوم تھا؟ نہیں بلکہ مجرموں کا نیٹ ورک بہت مضبوط تھا اور گواہ قتل کر دئیے جاتے تھے اور عدلیہ ڈر جاتی تھی۔ پھر نیویارک کے مئیر جولانی نے فیصلۂ کیا کہ عدالت کی کاروائی ماسک پہن کر کی جائے گی اور ایف بی آئی ہر وقت گواہ کی پروٹیکشن کرے گی۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے عدالت نے یہ ذلت سے بھرا فیصلہ قبول کیا اور کاروائی نقاب کے پیچھے ہوئی، گواہوں نے بھی ماسک پہن کر گواہی دی، وہ محفوظ رہے جان گاٹی کو سزاۓ موت ہو گئی اور ایف بی آئی نے مافیا کی کمر توڑ دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی مجرم عدالت سے سزا یاب نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجرم نہیں۔

کالعدم مذہبی  جماعتوں اور دیگر انتہا پسندوں کے کیسز میں ہماری عدلیہ کا جو کردار رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ مائی لارڈ کاش گڈ گورنس کی بات کرتے وقت آپ اس سوال کا بھی جواب دیتے کہ اک جمہوری دور حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام کیونکر ممکن ہوا؟ حضور اگر عدالتیں انصاف کر رہی ہوں تو حالت جنگ میں بھی ریاست کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ آپ ملکی حالات پہ جتنی گہری نظر رکھتے ہیں آپ کو بخوبی علم ہو گا کہ کالعدم جماعتوں کے یہ مذہبی انتہا پسند جان گاٹی سے بھی زیادہ زہریلے ہیں، دھونس دھاندلی چندہ بھتہ اور فرقہ وارانہ قتل و غارت وہ کون سا جرم ہے جو یہ لوگ نہیں کرتے؟ اور سونے پہ سہاگہ یہ سب کچھ ریاستی چھتری کے ساۓ تلے ہو رہا ہے۔

لہذا آئی اوبجیکٹ مائی لارڈ؛ آپ شوق سے حکومت کی سرزنش کیا کریں مگر اس سے پہلے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر لیا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply