کیا عقیدہ انسانیت سے بڑا ہوتا ہے؟۔۔۔عبید اللہ چوہدری

مجھے تو اپنے کئی عزیز ترین دوستوں کا اب آ کے پتا چلا ہے کہ وہ احمدی ہیں۔ ایک ایک کر کے کوئی انگلینڈ ، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ ،کینیڈا اور کچھ امریکہ چلے گئے۔ ۲۰ سے ۲۵ سال کی دوستی اور ایک بار بھی مذہب اور عقیدہ زیر بحث نہیں رہا۔ ظفر ملک سے محبت کا آغاز ۱۹۸۹ میں ہوا۔ اب کینیڈا میں ہے ۔ اس کا ایک برجستہ جملہ آج بھی مجھے دکھ سے میلوں دور لے جاتا ہے۔ مجھے ۲ سال قبل معلوم ہوا کہ اس کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔

سکول ٹائم میں گاوں گیا تو عیسائی ملازم کو صحن کے ایک کونے میں   علیحدہ برتنوں میں کھانا کھاتے دیکھا اور پھر اپنا کھانا اٹھا کر اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی سالن کی پیالی اٹھائی اور اپنی بوٹیوں والی پیالی اس کے سامنے رکھ دی اور کھانا شروع کر دیا۔ مراد عیسائی کی آنکھوں سے دو موتی زمین پر آ گرے۔ گھر والوں نے مجھے پاگل قرار دے کر معاف کر دیا۔ مجھے آج تک اس سے زیادہ قیمتی آنسو دیکھنے کو نہیں ملے۔

میٹرک میں ایک پارسی بیسٹ فرینڈ تھا۔ ٹیبل ٹینس ٹیم کی جوڑی تھے ہم۔ پی اے ایف کالج سرگودھا میں زیر تعلیم تھا تو دو سال روزوں میں راحت جوئیل کے گھر کے پر اٹھوں سے بھوک مٹائی۔ اس سال ایک عیسائی دوست سٹیفن رفیق نے آم کی ۵ پیٹیاں تحفہ بھجوائیں ۔ آم تو میں شوق سے کھاتا ہوں مگر ان آموں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ دوستوں کی ایک بڑی تعداد جان جگر علی رضا جس کا گھر میرا دوسرا گھر رہا شیعہ مسلک سے ہے۔ میرا بھائی جیسا دوست مشتاق منہاس ، پکا منصورہ برانڈ اور اب آزاد کشمیر میں پٹواری وزیر ہے۔ مگر دوستی میں کبھی کوئی رخنہ نہیں آیا۔ میرا عاشق اور میرا محبوب ڈاکٹر ندیم اشرف جو نماز پڑھتے ہوئے زبردستی میرے ہاتھ سینے پر ٹکا دیتا تھا آ ج ۳۵ سال بعد بھی میرا عزیز ترین دوست ہے۔ شاہد فیاض جو ہر قسم کے مذہب کے خلاف ہے ۲۵ سال بعد بھی دل کے اسی کونے میں بیٹھا ہے جہاں پہلے تھا۔

مشال خان کی دل خراش موت کے تیسرے ہی دن اس کے والد اور بھائی کو گلے لگایا تو میری روح بھی کانپ رہی تھی۔ ایک دوبہائی بھی حلقہ احباب میں رہے اور ان کے گھر بھی آنا جانا رہا۔ میں نے اپنے سب “کافر” دوستوں کو “مسلمان” دوستوں کے برابر یا کچھ معاملات میں ان سے بہتر ہی پایا ہے۔ باقی گالیوں کیلئے حاضر ہیں۔ گالیاں کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہیں۔ یہ تو ہم کچھ بھی نہ  کریں پھر بھی پڑنی لازمی قرار پا چکی ہیں۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply