گھٹیا افسانہ نمبر 4۔۔۔۔۔۔فاروق بلوچ

برٹرینڈرسل کے اصول علم کے تحت جاری مباحثے کا دوسرا سیشن شروع ہو رہا ہے. مجھے دوسری بار پھر سے مائیک سنبھالنے کا حکمنامہ جاری ہو رہا ہے. میں نے گلے کو صاف کرنے کے بعد بولنا شروع کر دیا ہے. “اِس معاملے کو انسانی رویے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے الفاظ کے اثرورسوخ کو سمجھنا پڑے گا. حیوانات دھوپ سے بچنے کے لیے سائے کی تمنا میں کم روشنی والی یا کسی اندھیری جگہ کی طرف متوجہ تو ہوتے ہیں لیکن وہ انسان کی مانند لفظ سایہ کا تلفظ نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ سایہ کہاں ہوتا ہے. یہ الفاظ ہی ہیں جن کا استعمال اور اُن کی افادیت “سوچ” کو تشکیل دیتی ہے. کسی بھی عقیدے کی تشکیل میں زبانی رویے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں. لیکن یہ حتمی شرائط نہیں ہیں. بہرطور ہمارے الفاظ اور ہماری زبانی عادات ہی ہمارے عقائد کو محکم اور اُن کی وضاحت کو ممکن بناتی ہیں”. میں نے بات کو یہیں ختم کرنا چاہا کیونکہ الفاظ کے بارے اِس سے زیادہ گفتگو کرنا اِن کو مافوق الفطرت بنانے کے مترادف ہے جو کہ فلسفہ کے لیے مصائب کا سبب بن جاتا ہے.

مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کھانا دراصل کھانا کیسے ہے. یہ پرل کانٹیننٹل کا عالیشان ہال ہے. ہر طرف خوشبوؤں کی بارش ہے. دیواریں سجاوٹ سے رنگین ہیں، دیواروں کو نجانے فوم کے کپڑے پہنائے گئے ہیں یا پھر یہ لیپ ہی ایسا باگداز ہے. میں تو بار بار جاکر دیواروں کے گلے لگ جاتا ہوں. چھت پہ اچانک نظر کیا پڑی میں تو منہ ہی اوپر کیے کھڑا رہ گیا ہوں. چھت ہے یا ستاروں سے بھرپور آسمان ہے. کئی اقسام کے بڑے چھوٹے فانوس نے چھت کو جابجا چاند مہیا کیے ہوئے ہیں. اچانک کسی نے بتایا کہ دلہن دلہا آ رہے ہیں. پھولوں کی بارش کرنے کے لیے دوستوں رشتہ داروں نے جگہیں سنبھال لی ہیں. بڑی برادری کے اِس دلہے نے کم از کم پچاس تولے سونا پہن رکھا ہے. چھ فٹ کی قد، چوالیس کا چوڑا چکلہ سینہ، اور خاندانی وقار نے اِس نوجوان کو بلاشبہ شہزادہ ثابت کر دیا ہے. دلہن کے معصومیت  بھرے  حسیں چہرہ کو دلکش میک اپ نے مزید مہمیز کر دیا ہے. نوکیلی گلاب کی شاخ کی مانند دلہن کی شخصیت بھی شہزادی سے قطعی کم نہ ہے. میرے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب یہی لڑکی کوہالہ پل سے کود کر خودکشی کرنے لگی تھی. آج کتنی پُراعتماد لگ رہی ہے. واہ وقت کیسے بدل جاتا ہے. دلہن کی والدہ میرے پاس آئیں، کمال ساڑھی  زیب تن کی ہوئی  ہے. گہرے گلے پہ مہارت سے اوڑھے گئے آنچل سے بھی گناہوں کا دلربا دعوت نامہ پہ دعوت نامہ موصول ہو رہا ہے. مجھے قریب پاتے ہی بولنا شروع کر دیا: “یار تمہارا گفٹ تمہیں پسند آیا؟” میں نے عرضداشت پیش کرنا چاہی: “آنٹی اتنے بڑے خاندان کی عزت رکھی ہے، کلٹس کار تو معمولی سا گفٹ ہے، اس حال میں موجود ہر بندہ اِس بات سے ناآشنا ہے کہ دلہن شادی سے دو ماہ قبل بچہ ضائع کروا چکی ہے”. آنٹی گویا ہو رہی ہے: “بکواس مت کرو، رات کو فیکٹری والے فارم ہاؤس پہ آ جانا، ہم بھی سہاگ رات یاد کرنا چاہتے ہیں”. میں ایک بار لہک لہک کر عرض کر رہا ہوں: “آنٹی آلٹس 1.8 میں بلیو کلر بہت پیارا ہے”. آنٹی   تسلی بھری نگاہوں سے دیکھ کر فارم ہاؤس پہ پہنچنے کا حکم جاری کرکے دلہن کے پاس پہنچ چکی ہے.

میں نے گولڈ لیف کے سگریٹ کو یوں تھاما  ہوا ہے جیسے یہ دنیا کا آخری سگریٹ ہے، اور دنیا جہاں کے لوگ اِس کو تلاش کرنے کے لیے منڈلاتے پھر رہے ہیں، کسی نے شوشا چھوڑا ہے جو اِس آخری سگریٹ کو پیے گا وہ آدھی دنیا کا حاکم ہو گا. سرف کی پچھلی سیٹ پہ آلتی پالتی مارے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو کھول کر آسمان کی طرف پھیر دیا ہے جیسے اوپر سے کوئی بارش ہونی ہے جس کی ہتھیلی کو شدت سے پیاس ہے. دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے فلٹر مخالف نوک تھام کر جو ہلکا ہلکا پھیروار دباؤ دے کر سگریٹ نچوڑا ہے تو تازہ تمباکو سگرئٹ سے یوں ہتھیلی پہ گرنے لگا ہے جیسے ورم زندہ آنکھ انگلیوں کے ہلکے سے دباؤ کے بیچ کُھل کر دوا کی شیشی کے نوک دار منہ سے نکلنے والی دوا کے قطرے گرتے ہیں. انگلیاں آہستہ آہستہ خالی ہونے والے سگریٹ پہ عمدگی سے اوپر کو اُٹھ رہی ہیں. تمباکو قطرہ قطرہ اُوس مانند ناچتا اچھلتا اور کودتا ہوا ہاتھ کے ہتھیلی پہ یوں سج رہا ہے جیسے مہندی سج رہی ہو. خالی خول کان پہ اٹکا کر ہتھیلی پہ بکھرے تمباکو کو سُلجھا کر دائیں انگوٹھے کے ہلکے دباؤ کیساتھ تمباکو سے کھیلنا ایسا شروع کیا ہے جیسے سہاگ رات پہ مرد کا انتظار کرنے والی دلہن ہاتھ میں پہنے ہوئے کنگن سے الجھتی ہے اور ہتھیلی پہ سجی مہندی پی اتراتی ہے. بائیں ہتھیلی پہ تمباکو کو سنبھال کر انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں چرس کی متوازن مقدار کی حامل ماچس کی تیلی کی نوک کو دائیں ہاتھ میں پکڑے لائٹر سے آنچ دیکر چرس کو نرم کرنے کے بعد ہتھیلی پہ سجے تمباکو میں یوں گرا دیا ہے جیسے مدتوں کا تھکا ہارا جسم بستر کی گود پہ گرتا ہے. دائیں ہاتھ کی انگلیوں نے تمباکو اور چرس کے ٹکڑوں سے ایسی مستیاں شروع کیں ہیں کہ جیسے یہ خدا بنائی ہی تمباکو اور چرس کو یکجان کرنے کے لیے ہیں. خالی خول کو کان سے اتارنے کا مرحلہ یوں طے کیا ہے کہ جیسے پکے ہوئے لیموؤں سے بھرپور پودے سے ایک لیموں آہستگی سے اتارا جائے کہ دیگر پکے ہوئے لیموں شاخ کی تھرتھراہٹ برداشت نہ پائیں گے. خول کا فلٹر دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں تھام کر چرس والا تمباکو بھرنا شروع ہی کیا ہے کہ محبوب صاحب بولے “یار تقریر میں سے آپریشن والا آخری پیراگراف ہذف نہ کر دیں ذرا عجیب سی فیلنگ آ رہی ہیں”. میں نے نظریں بھرتے ہوئے خالی خول سے اوپر اٹھا کر اگلی نشست پہ بیٹھے کاغذوں میں الجھے محبوب صاحب کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ہوں “مجھے یہ تقریر بالعموم اور یہ پیراگراف آپ کے لیے لکھی گئی تمام تقاریر میں سے ایسا پسند آیا ہے مجھے اس کا حرف حرف زبانی یاد ہے”. محبوب صاحب نے قہقہہ لگا کر سنانے کا چیلنج کیا دیا ہے کہ میں نے نظریں جھکا کر خول کو بھرتے بھرتے بولنا شروع کر دیا ہے “یقیناً یہ کالا اور انسان دشمن کاروبار بظاہر غیرقانونی ہے مگر اِس کا پروٹوکول دنیا کے دوسرے قانونی کاروباروں سے زیادہ ہے. بڑے بڑے سرمایہ دار اور سیاستدان اِس دھندے میں ملوث ہیں. اتنے بڑے عالمی کاروبار میں ملوث لوگ اور پورا کاروباری ڈھانچہ ایسا بھی خفیہ نہیں کہ پکڑ میں نہ آ سکے، لیکن کوئی اپنے خلاف آپریشن کیوں کرے گا؟”. محبوب نے پھر سے قہقہے لگا کر اپنا اعلان سنا دیا ہے کہ “مجھے بطور سربراہ اینٹی نارکوٹکس کو ایسے کلمات ادا نہیں کرنے چاہئیں”.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے….

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply