کیا چشمہ آب حیات وجود رکھتا ہے؟
کیا خضر علیہ السلام نے چشمہ آب حیات کا پانی پیا تھا؟
کیا خضر علیہ السلام واقعی زندہ ہیں؟
رشی چیون کون تھے؟
چیون پراش ادلیہ کیا ہے؟
کیا اب بھی اصلی چیون پراش دستیاب ہے؟
انسان بوڑھا کیوں ہوتا ہے؟
کیا انسان کبھی ابدی حیات کا راز پالے گا؟
سائنس حیات ابدی کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
سائنسدانوں نے بوڑھوں کو جوان کرنے کی ترکیب ڈھونڈ نکالی ہے!
آب حیات:
وہ روایتی پانی جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ اس کا ایک قطرہ پینے کے بعد انسان امر ہو جاتا ہے۔ (یہ پانی چشمۂ ظلمات میں بتایا گیا ہے، کہتے ہیں کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر نے یہ پانی پی کر عمر ابد حاصل کی، لیکن سکندر اس کی تلاش میں بحر ظلمات تک گیا تو بے نیل مرام واپس آیا)،
اس حقیقت کے باوجود کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے , حضرت انسان ہمیشہ سے ابدی زندگی کی تلاش میں رہا ہے۔ ہمیشہ جوان اور حیات رہنے کی تمنا میں انسان ایسے کسی چشمے کی کھوج میں رہا ہے کہ جس کا پانی پی کر حیات ابدی حاصل ہوسکے۔ بے شمار قصے کہانیوں اور داستانوں میں اس چشمہ آب حیات کا ذکر ملتا ہے۔ اس موضوع پر کچھ فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں اور کئی ناول بھی لکھے جاچکے ہیں۔ انڈیانا جونز سیریز کی ایک فلم انڈیانا جونز اینڈ دی لاسٹ کروسیڈ
Indiana Jones And The Last Crusade
بھی ہے جس میں وہ ہولی گریل Holy Grail یعنی اس گلاس یا پیالے کی تلاش میں نکلتا ہے جو عیسائی روایات کے مطابق وہ گلاس یا پیالہ ہے جس میں حضرت عیسی ع نے اپنے مصلوب ہونے سے والی رات رات کے کھانے کے بعد مشروب پیا تھا۔ اسی پیالے میں عیسی کے مصلوب ہونے کے بعد جوزف نے عیسی کا خون بھی جمع کیا تھا۔ روایت ہے کہ اگر اس پیالے میں کوئ مشروب پی لیا جائے تو وہ آب حیات بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم!
اس موضوع پر ایک ناول “ٹک ایور لاسٹنگ ”
TUCK Everlasting
بہت دلچسپ ہے اور اس پر والٹ ڈزنی اسٹوڈیو سے ایک بہت خوبصورت فلم بھی بن چکی ہے۔
مکاشفہ ۲۲:۱، ۲ میں لکھا ہے: ”اُس نے مجھے بلور کی طرح چمکتا ہوا آبِحیات کا ایک دریا دِکھایا جو خدا اور برّہ کے تخت سے نکل کر اُس شہر (یعنی نئے یروشلم) کی سڑک کے بیچ میں بہتا تھا۔پھر اس نے مجھ سے کہا یہ باتیں پوری ہو گئیں ۔ میں الفا اور اومیگا یعنی ابتدا اور انتہا ہوں ۔ میں پیاسے کو آب حیات کے چشمہ سے مفت پلاؤں گا ۔جہاں، ہمارا بادشاہ یسوع مسیح بڑی بِھیڑ کو ”آبِحیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا۔“—مکاشفہ
آب حیات کا تصور حضرت خضرؑ کے حوالے سے معروف ہوا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ”بلیا” اور ان کے والد کا نام ”ملکان” ہے۔ ”بلیا” سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ”احمد” ہے۔ ”خضر” ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ”خضر” کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ”خضر” کہنے لگے۔ابوالعباس بلیابن ملکان یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔
اامام حجرعسقلانی کی کتاب حیاتِ حضرت حِضر کے مطابق حضرت خضرؑ قیامت تک زندہ ر ہیں گے، یہ کہاجاتا ہے کہ حضرت خضرؑ نے آب حیات پیا تھا جس کی وجہ سے آپؑ قیامت تک زندہ رہیں گے۔اس روایت کی وجہ سے صدیوں سے لوگ آبِ حیات کا چشمہ تلاش کررہے اور اسکی حقیقت جاننے کی کوشش کررہے ہیں ۔مذہبی رہنما مفتی محمد شبیر قادری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ تو اس کو افسانے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آبِ حیات کا تذکرہ نہ تو کلام اللہ کی کسی آیت میں ہے اور نہ ہی کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی روایت میں ہے البتہ کچھ مفسرین نے سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے آبِ حیات کے بارے میں بات کی ہے، جن میں حضرت ذوالقرنینؑ کے سفر کا تذکرہ ہے۔
حضرت سید نعیم الدین مراد آبادی تفسیر خزائن العرفان میں سورہ الکہف کی آیت نمبر 86 تا 98 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’حضرت ذوالقرنینؑ نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنینؑ نے مغرب کا سفر کیا۔ آپؑ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے۔ وہ آب حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا، مگر حضرت ذوالقرنینؑ کے مقدر میں نہیں تھا وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپؑ جانبِ مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپؑ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ’’ناسک‘‘ کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنینؑ نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنینؑ نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔
چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپؑ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔‘‘ اسی طرح تفسیر خازن میں امام علاؤالدین علی بن محمد نے اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضرؑ اور الیاس جمہور عْلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، اور ہر سال زمانہ حج میں ملتے ہیں اور یہ کہ حضرت خضر ؑ نے چشمہ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کو شوق ہوا کہ وہ آبِ حیات کا چشمہ تلاش کرے اور اس کا پانی پیے۔ وہ اسے تلاش کرتا کرتا اس تک پہنچ گیا تو اس نے چشمے کے کنارے پر ایک پرندہ پایا جس کے بال و پر جھڑ چکے تھے، کھال لٹکی ہوئی تھی، چونچ گھس چکی تھی، لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ سکندر نے پوچھا کے ”اے طائر لاہوتی، تو آب حیات کے چشمے کا پانی پی کر نچنت کیوں نہیں ہو جاتا؟ کیوں اتنی تکلیف میں پڑا ہوا ہے؟ “ طائر لاہوتی نے جواب دیا کہ ”اسی چشمے کا پانی پی کر تو اس حال کو پہنچا ہوں۔ میں نے لائسنس ایگریمنٹ کو پڑھے بغیر کلک کر دیا تھا اور جام چڑھا گیا۔ اب علم ہوا کہ آبِ حیات ابدی زندگی تو دیتا ہے، مگر جوانی نہیں۔ اب بڑھاپے نے میرا یہ حال کر دیا ہے کہ چلنے پھرنے سے لاچار ہوں مگر موت نہیں آتی کہ کچھ راحت پاؤں“۔ سکندر نے پانی پینے سے انکار کر دیا اور واپس پلٹ آیا اور بتیس سال کی بھری جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
انسان نے تقریباً ساری دنیا کھنگال ڈالی ہے، بے شمار خفیہ گرد سرد اور مختلف نمکیات سے پُر چشمے بھی مل گئے ہیں لیکن ”جوانی کا چشمہ“ اور آب حیات نہیں مل سکا۔ علم و تحقیق کے مطابق بڑھاپے یا عمر میں اضافہ کا سلسلہ پیدائش کے دن ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ بچہ کا بڑا ہو کر بالغ ہونا، پھر بڑھاپے میں قدم رکھنا جس کے بعد اضافہ عمر کے سبب انسان کی کارکردگی گھٹنے لگتی ہے جو بالآخر موت پر ختم ہو جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ برصغیر میں امرت کی تلاش میں کبھی یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ آملے کے درخت پر چڑھ کر اس کے پکے پھلوں کو کھانے سے عمر بڑھتی ہے۔ آیور ویدک کی کتابوں میں ایسے طریقے اور عمل درج ہیں جن کے نتیجہ میں جسم کے پرانے اور بوسیدہ حصے الگ ہو کر نئے خلیات پر مشتمل حسین بدن جنم لیتا ہے لیکن بدقسمتی سے کتابوں میں اس کے صرف تذکرے ہی ملتے ہیں۔ اصل نسخہ ”تجدید شباب“ وہاں بھی ناپید ہے۔
چیون پراش ادلیہ طب آیورویدک کی مشہور و معروف ادویات میں سے ہے جس کے متعلق پرانوں اور چرک سنگھتا وغیرہ میں ایک روایت مشہور ہے کہ چیون رشی ریاضت کرتے کرتے بوڑھے اور ازحد کمزور ہوگئے تھے یہاں تک کہ ان کا جسم سوکھ کر ہڈیوں کا پنجر رہ گیا تھا بلکہ لکھا ہے کہ ایک ہی جگہ مستقل بیٹھے رہنے سے ان کے جسم پر مٹی پڑ پڑ کر گھاس اگ آئ تھی۔ ایسی ضعیفی کے عالم میں انہیں اولاد پیدا کرنے کی زبردست خواہش ہوئی ۔ اس وقت اشونی کماروں نے اس رشی کو ایک ادلیہ( معجون) بنا کر دیا جس کے استعمال سے رشی کی تمام کمزوریاں دور ہوگئیں اور وہ ضعیف العمر چیون رشی ایک بار پھر جوان ہوکر اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوگئے۔ وہی ادلیہ اس وقت سے کتب میں چیون پراش یعنی چیون رشی کی خوراک کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا مبارک نسخہ تقریبا” تمام آیورویدک کتب میں درج ہے لیکن دراصل یہ نسخہ ایورویدک کی گرنتھ چرک سنگھتا کا ہے اور وہیں سے نقل در نقل دیگر کتب میں لکھا گیا ہے۔چیون پراش ادلیہ کا جزو اعظم آملہ ہے۔ قدیم رشیوں کی مشہور و معروف دوائیوں میں افضل ہونے کی وجہ سے معمولی سے معمولی وید بھی اس کو استعمال کرتے ہیں اور تمام ایورویدک فارمیسیوں میں یہ بکثرت بنتا ہے۔ لیکن اس وقت تک جتنی بھی فارمیسیوں میں چیون پراش تیار کیا جاتا ہے وہ دراصل حقیقی چیون پراش نہیں ہے کیونکہ اس کے کچھ اجزا ہزار کوشش کے باوجود اب نایاب ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں۔ البتہ بعد میں آنے والے شاستروں نے نایاب اشیا کی پرتی ندھی یعنی بدل اشیا کے نام لکھ دئیے ہیں۔ اس کے علاوہ اصلی چیون پراش کی تیاری میں کچھ خاص راز اور آملوں کی ایک خاص مقدرا کا بھی عمل دخل ہے لہذہ مختلف ویدوں میں شدید اختلاف ہونے کی وجہ سے موجودہ دور میں چیون پراش چوں چوں کا مربہ بن گیا ہے جس سے ہرگز ہرگز کسی بوڑھے میں جوانی نہیں لوٹ سکتی ۔ اصلی چیون پراش کی ترکیب میں کون کون سے اجزا شامل ہوتے ہیں کتنے آملے ہونے چاہئیں اور کس طریقے سے تیار کرنا چاہئے وہ ایک الگ طویل بحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
سائنس جسم میں آنے والی تبدیلیوں اور موت کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کرتی ہے لیکن دو سوالوں کے جواب دینے سے فی الحال قاصر ہے (جس کی تگ و دو میں وہ برابر مصروف ہے) پہلا سوال یہ کہ کیا اضافہ عمر اور موت کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اور اگر ہے تو وہ مقصد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل عمری یا طویل شباب کی تلاش میں انسان صدیوں سے سرگرداں ہے۔ آب حیات، چشمہ شباب ، امرت وغیرہ وغیرہ اس کے ثبوت ہیں۔ سکندر اعظم سے بھی پہلے کے لوگ یقینا اس کی آرزو اور تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ سکندر اور خضر کا واقعہ صدیوں سے مشہور چلا آ رہا ہے۔ چشمہ شباب کے تلاش اور اس کا پانی پینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ انسان ہمیشہ جوان اور توانا و صحت مند رہے اور لمبی عمر پائے۔ تلاش کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
یہاں مشرق کے قدیم تجربات کا ذکر بھی مناسب ہوگا جن کے مطابق یوگا، تائی چی اور چی کانگ جیسی نہایت کارآمد ورزشیں عمر بڑھاتی ہیں۔ ان ورزشوں کی بنیاد ان نظریوں پر ہے کہ صحت دراصل جسمانی ، جذباتی ، ذہنی اور روحانی توازن کے نتیجے میں حاصل ہو سکتی ہے۔ ان میں ورزشوں کے علاوہ جسم کو حالت آرام میں لانے کے طریقوں کے علاوہ سانس لینے کی ورزشیں، غذا اور مراقبہ بھی شامل ہے۔ ایک ماہر یوگی بہت طویل عرصہ تک بغیر کوئی تکلیف محسوس کئے اپنی سانس روک سکتا ہے۔ اپنے دل کی دھڑکنوں کے مدوجزر پر قابو حاصل کر سکتا ہے۔ گرمی اور سردی کی شدتوں کو برداشت کر سکتا ہے اور فاقہ کشی کے باوجود تندرست رہ سکتا ہے۔ یہ یوگی لوگ اپنی صلاحیتوں کے پورے استعمال کے ساتھ اکثر بہت طویل عمریں پاتے ہیں۔ اور یہ یوگی کیا ہوتا ہے؟ نہیں سمجھتے تو کسی سمجھ دار سے پوچھ لیں۔
اب اہل مغرب نے سائنس کی چھڑی ہلائی ہے۔ ان کو آبِ حیات مل گیا ہے۔ انسانی جسم میں خلیے آہستہ آہستہ بوڑھے ہونے لگتے ہیں۔ ایک خاص حد تک تقسیم در تقسیم ہونے کے بعد ان کی بس ہو جاتی ہے اور وہ بڑھنا بند ہو جاتے ہیں۔ کروموسوم کے سروں پر موجودہ ٹیلومر عمر بڑھنے کے ساتھ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔
اب برطانوی سائنسدانوں نے تجربات کیے ہیں جن کے نتیجے میں وہ ان بوڑھے خلیوں کو دوبارہ نوجوان بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان خلیوں کے ٹیلومر دوبارہ لمبے ہو گئے ہیں۔ یعنی بڈھوں کو اب یہ کیمیائی آب حیات دیا جائے گا تو وہ ایک بار پھر جوان ہونے لگیں گے۔ جھریاں جاتی رہیں گے۔ بڑھاپے کی بیماریوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ بڑھاپے کے ساتھ آنے والی دل کی بیماریاں اور فالج نہیں ہوں گے۔
بیس سال کے اندر اندر یورپ میں سو سال تک جینا عام بات ہو گی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا سائنسدان کہہ رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات بھارتی نژاد ڈاکٹر شرد پاتلجاپور کے مطابق اوسط زندگی میں اضافہ جو علاج اور بیماری کی روک تھام کے شعبوں میں ترقی کی وجہ سے ہو رہا ہے، اس دنیا اور دنیا میں رہنے والوں کی زیست کو بدل دے گا۔ اس کے ساتھ گہری سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئیں گی جن میں بوڑھوں کی تعداد میں ایک بہت بڑا اضافہ بھی شامل ہے۔ ایک نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ یا پنشن کی عمر بڑھا کر 85 سال کر دی جائے۔ دوسرا اولڈ پیپلز ہوم (جن کو ہالینڈ میں گیسٹ ہاؤس کہتے ہیں) کی تعداد بڑھا دی جائے۔ یہ سب کچھ 2018 کے بعد شروع ہونے کی توقع ہے جب انسانی زندگی اتنی تیزی سے بڑھنی شروع ہوگی کہ ساٹھ ستر برس میں بیمار پڑنے والوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ڈاکٹر تلجاپورکر کی تحقیق کے مطابق یہ عمل جس میں تیزی جاری رہے گی 2040 تک کا ہو سکتا ہے۔ اس دوران اوسط زندگی میں 20 سے 25 سال کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں اوسط زندگی 80 سے 100 سال تک پہنچ جائے گی۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے اور قرآن مجید کہتا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اصل چیز زندگی کی امنگ اور طبیعت کی جولانی ہے جس کے بغیر لمبی زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ ہماری تو یہی کوشش ہونی چاہئے کہ دنیا میں ایسے اعمال سرانجام دے جائیں کہ پھر اللہ کے وعدے کے مطابق ایک پرلطف حیات دائمی ہمارا مقدر بن جائے۔
اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، بلاگز، ویب سائٹس اور انسائیکلوپیڈیا کی مدد لی گئی ہے اور کچھ مقامات پر عبارت حوالے کی تحریر سے نقل بھی کردی گئی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں