نشاطِ وصل و عذابِ ہجراں

اس دنیا میں انسان کو وقت میں قید کر دیا گیا ہے۔ زندگی شاید اسی وقت میں قید کا نام ہے اور جو اس قید سے آزاد ہو جائے تو پھر بھی قبر میں ایک لامتناہی وقت کی قید ہے۔ وقت کی چھاپ ہر ذی روح پر مختلف ہوتی ہے۔ نفس، خواہشات، توقعات اور بے شمار ضروریات کے ہوتے ہوئے انسان کا اپنے وجود کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ بے شمار آرزوؤں کے ہوتے ہوئے شائد سب سے مشکل کام زندہ رہنا ہے اور سب سے آسان کام ’مرنا‘ ہے۔ کسی حسین، چنچل لڑکی/ لڑکیوں پہ مرنا۔۔۔ اور ایسا مرنا ہی انسان کی زندگی کو اور زیادہ اجیرن کر دیتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر حال میں مشکل ہی مشکل ہے۔
یونیورسٹی کے زمانے میں علم و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے ان مشکل کے ماروں سے کافی واسطہ رہا۔ کچھ اپنے محبوب کی ادائیں اور شوخیاں بیان کرتے تو کچھ اپنے محبوب کی بے نیازی اور ہجر کی سختیاں سناتے۔ لاہور سے واپس گھر آتے ہوئے میری خوشی کی شدت کم ہوتی اور گھر سے دور واپس لاہور آتے ہوئے غم کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے میں ان ہجر کے ماروں کی طرف زیادہ مائل ہوتا تھا۔ ان درد کے ماروں کا حل ڈھونڈنا شروع کیا تو رسولِ عالی مرتبت ﷺ کا ایک قول ملا کہ ”جب تمہیں اپنا غم بڑا لگے تو میرے غموں کو یاد کر لیا کرو پھر تمہیں اپنا غم بہت ہلکا لگے گا“۔ دوسروں کے دکھوں کا حل ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنا آپ لُٹا بیٹھا۔
کچھ دن پہلے ایک بہت ہی قریبی دوست کا فون آیا جو کہنے لگا کہ چل یار عمرہ کرنے چلتے ہیں۔ کچھ دن وہاں رہیں گے اور واپس آ جائیں گے۔ نشاطِ وصل کا خمار چڑھا اور فوراً رسول اللہ ﷺ کا قول یاد آ گیا اور حضرت بلالؓ اور آقاﷺ کا ہجر بھی یاد آ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت بلالؓ ملک شام چلے گئے کہ یہ ہجر سہا نہیں جاتا، یہاں ہر چیز مجھے میرے محبوبﷺ کی یاد دلاتی ہے، پھر جب حضرت بلالؓ کو خواب میں مدینہ کا بلاوا آتا ہے تو آپؓ اُٹھتے ہی مدینے کی طرف چل پڑتے ہیں اور مدینہ میں داخل ہوتے ہی آوازیں لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ میں آ گیا، آپ ﷺ کہاں ہیں، یارسول اللہ ﷺ میں آ گیا، آپ ﷺ کہاں ہیں۔ تو میں سوچتا ہوں کہ جب مجھے بھی حاضری کا شرف بخشا جائے گا تو میری بھی ویسی ہی حالت ہو گی جیسی کہ حضرت بلالؓ کی۔
میں وقت کی قید سے، وقت کی چار دیواری پھاند کر اُسی وقت میں چلا جاؤں گا جہاں خاتم النبیﷺ اور آپﷺ کے اصحابؓ موجود ہوں گے۔ میں گلی کوچوں میں جسمِ اطہرﷺ کی خوشبو کو سونگھنا چاہوں گا، میں ایک مفلس فقیر کی طرح آپﷺ کے در کا وہ سوالی بننا چاہوں گا کہ بس آپﷺ کی ایک نظرِ کرم مجھ پہ پڑ جائے اور آپﷺ کی ہر ہر ادا سے اپنے آپ کو زندگی دینا چاہوں گا، میں نانا کے کاندھوں پہ حسنؓ و حسینؓ کو دیکھنا چاہوں گا، میں اذانِ بلالیؓ کی ’س‘ اور ’ش‘ کو سننا چاہوں گا، میں فقرِ رسولﷺ کو دیکھنا چاہوں گا، میں غارِ یار اور ’صدیقؓ‘ کی صداقت پہ بھی گواہی دینا چاہوں گا، میں جنگِ نفسِ عمرؓ اور عدلِ عمرؓ ہوتے ہوئے دیکھنا چاہوں گا۔
میں سخاوتِ حضرت عثمانِ غنیؓ اور فاتحِ خیبر علی المرتضیٰؓ کی یلغار دیکھنا چاہوں گا، میں، خالد بن ولیدؓ کی بہادری اور شجاعت کا نظارہ چاہوں گا، میں مجاہدِ اسلام ابو عبید اللہ بن جراحؓ کے بلند ہوتے ہوئے ’نعرہ تکبیر‘ پہ ’اللہ اکبر‘ کہنا چاہوں گا، میں اپنے وطن کے بچوں کے لیے جنت کے سرداروں، حسنؓ و حسینؓ کی مسکراہٹ مستعار لینا چاہوں گا اور جب مجھے ایسا کچھ بھی نہ ملا تو میں بھی قلب و نظر کی پیاس بجھانے کے لیے روضہ رسولﷺ کی جالیوں کے ساتھ لگ کہ حضرت بلالؓ کی طرح کہتا جاؤں گا کہ ”یا رسول اللہ ﷺ، غلام حاضر ہے، یا رسول اللہ ﷺ، غلام حاضر ہے“ اور دعا کروں گا اے عرش و فرش کے مالک، محمد مصطفیٰﷺ پہ اتنا سلام بھیج کہ کوئی سلامتی باقی نہ رہے، اتنی رحمت بھیج کہ کوئی رحمت باقی نہ رہے اور اتنا درُود بھیج کہ کوئی درُود باقی نہ بچے۔ مجھے دائی حلیمہ سے لے کر امی عائشہؓ کی گود میں آپﷺ کا رکھا ہوا سر مبارک اور فرشتہء اجل کے اجازت مانگنے تک آپﷺ کی ہر پڑھی اور سُنی ہوئی بات یاد آ جائے گی۔ ہجر کے روگ سے بڑا کوئی روگ نہیں اور اس روگ کو کم کرنے کا طریقہ ”یاد“ ہے اور اُس ہادیء برحقﷺ پہ درود و سلام بھیجنا یاد کا بہترین طریقہ ہے۔

Facebook Comments

طلال انور
میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply