سویلین مائنڈ سیٹ ۔۔۔۔طارق احمد

ابھی حال میں ملٹری مائنڈ سیٹ کے حوالے سے میرا کالم چھپا۔ کچھ آرمی دوستوں نے مطالبہ کیا۔ یہ تو ھوا ھم پر ، اب ایک کالم سویلین مائنڈ سیٹ پر بھی لکھ دیں ۔ تاکہ فرق معلوم ھو سکے اور ھم بہتر طور پر مکمل تصویر بھی سمجھ لیں اور شائد بہتری کی کوئی گنجائش بھی نکل آے ۔ تو جناب فرمائش پوری کر دی ھے۔ جیسا میں نے پہلے کالم میں بھی لکھا تھا۔ مائنڈ سیٹ ایک زھنی کیفیت کا نام ھے۔ اور یہ زھنی کیفیت اس مخصوص ماحول، جاب ، کاروبار ، فیملی ، مطالعہ اور تاریخ کی مرھون منت ھے۔ جس میں ھم زندہ ھیں ۔ مائنڈ سیٹ ھمارے رحجانات، ھمارے عمل، ردعمل ، ھمارے اھداف ، سوچ کے انداز ، خیالات ، حصولیات اور امکانات کا اظہار ھے۔ ان سے ترتیب پاتا ھے۔ اور اور انہی کے اندر حرکت پذیر ھے۔ جب ھمارا مائنڈ سیٹ ایک عادت کی شکل اختیار کر لے ۔ تو پھر یہ ھماری مکمل شخصیت کا پرتو بن جاتا ھے۔ اور بتاتا ھے ھم کیا ھیں اور کیا بن سکتے ھیں ۔
مائنڈ سیٹ فکسڈ بھی ھو سکتا ھے۔ اور ترقی پذیر بھی ۔ فکسڈ مائنڈ سیٹ خطرناک ھے۔ محدود ھے۔ اور یک زاویہ ھے۔ فکسڈ مائنڈ سیٹ کے حامل افراد اس نظریے کے حامی ہیں ۔ کہ ذاتی یا ملکی ترقی کرنے کا ایک ھی طریقہ ھے اور وہ یہ کہ غلطیوں ، لغزشوں، کوتاہیوں اور جرائم کو درست کر لیا جاے ۔ ان سے سیکھا جاے اور یوں ترقی کے راستے کھل جائیں گے۔ ریاستی سطح پر عام طور پر اسی فکسڈ مائنڈ سیٹ کی ترویج کی جاتی ھے۔ اور ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت مخصوص مائنڈ سیٹ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ھے۔ جیسے پاکستان میں تمام ناکامیوں اور غلطیوں اور محرومیوں کو سیاستدانوں کی کرپشن اور نااھلی پر ڈال دیا جاتا ھے۔ فکسڈ مائنڈ سیٹ ناکامی کی صورت میں فرسٹریٹریش کا شکار ھوتا ھے اور امید کی بجاے ناامیدی کی راھیں کھولتا ھے۔ دوسری جانب ترقی پذیر یا حرکت پذیر مائنڈ سیٹ جہاں غلطیوں پر توجہ دیتا ھے۔ وھیں وہ نئے آئدیاز اور نئ راھوں کو بھی کھولتا ھے اور ایک ناکامی کی صورت میں دوسری راہ میسر ھوتی ھے۔ اور مزاحمت اور امید اور ترقی جاری رھتی ھے۔
سویلین مائنڈ سیٹ کو مندرجہ ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ھے۔
1۔ مائ باپ کا تصور
تاریخی بھی ھے۔ سماجی اور معاشرتی بھی اور غیر جمہوری بھی۔ ھندوستان کے لوگ اپنے بادشاہ کو اپنا مائ باپ سمجھتے تھے۔ جو والدین کی طرح ان کی خوراک ، تحفظ اور صحت کا ذمہ دار ھے۔ ھمارے کلچر میں آج بھی یہ ایک کامن فقرہ ھے جو ایک کمزور شخص طاقتور کے سامنے بولتا ھے۔ آپ مائ باپ ھو۔ جو مرضی کہہ لیں ۔ زمیندار، وڈیرا، سردار تو ھیں ھی ، سرکاری ملازم مثلا ڈپٹی کمشنر، تحصیلدار، پٹواری، تھانے دار بھی اسی کیٹیگری میں آتے ھیں ۔ اور منتخب ایم پی اے اور ایم این اے بھی مائ باپ بنے پھرتے ھیں ۔ اس تاریخی، سماجی اور معاشرتی کلیشے نے ھماری نفسیاتی اور جمہوری گروتھ کو نہ صرف بہت برے طریقے سے متاثر کر رکھا ھے۔ ستم ظریفی یہ ھے کہ ھم اس کلچر کو تعلیم اور تربیت سے ختم کرنے کی بجاے اسے مزید پروان چڑھا رھے ھیں اور پختہ کر رھے ھیں ۔ اور اس میں ھمارے تعلیم یافتہ طبقے کا زیادہ ھاتھ ھے۔ جو کسی مقام پر پہنچ کر خود اس کنزرویٹو اور بورثوائ سوچ کا پیروکار بن جاتا ھے۔ اور وجہ اس کی وھی ھے۔ کہ ھم من حیث القوم اس مائ باپ مائنڈ سیٹ کے حامل ھیں ۔ اور سول و فوجی افسروں، اشرافیہ اور طاقتوروں سے نہ صرف متاثر ھیں بلکہ ان جیسا بننا بھی چاھتے ھیں ۔ اور ان سے تعلقات رکھنا چاھتے ہیں ۔
2۔ نرگسیت
خود سے پیار ، اپنی زات کا اظہار، اپنی کامیابیوں اور حصولیات کی تکرار، اپنے خیالات اور نظریات کی بھرمار ھمارے اس مائنڈ سیٹ کی بنیاد ھے۔ یہ سیلفی کلچر کیا ھے۔ اور پھر اس سیلفی کو سوشل میڈیا پر لگانا ۔ یہی کہ تمام لوگ ھمیں دیکھیں، ھماری تعریف کریں اور ھم میں دلچسپی لیں ۔ یہ لائق اور کمنٹ گننا اور شیئرز گننا اور دوستوں اور فالوورز کی تعداد گننا یہ اسی نرگسیت کا اظہار ھے۔ اینکرز کو دیکھیں ۔ مہمانوں کو بلواتے ھیں اور خود بولتے ھیں ۔ ھم سننے اور پڑھنے کی بجاے بولنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ھیں اور ایک خاموش سامع ھمیں بہت پسند ھے۔ اور ھماری سماجی و معاشرتی پوزیشن اور ترقی ھماری اسی نرگسیت کی مرھون منت ھے۔ اچھا مزے کی بات یہ ھے۔ جو لوگ بظاہرا سوشل میڈیا سے دور رھتے ھیں، اپنے آپ میں مست ھیں اور نرگسیت کو نہیں مانتے۔ وہ زیادہ شدید طریقے سے اس کا شکار ھیں ۔ اتنے زیادہ کہ اظہار سے بھی ڈرتے ھیں ۔
3۔ ججمنٹل یعنی فیصلہ دینا
ھم راے نہیں دیتے ۔ فیصلہ سناتے ھیں ۔ ھم سب جج ھیں ۔ ھم نے اپنی عدالتیں لگا رکھی ھیں ۔ اور ھم انسانوں کی شخصیات کے متعلق فیصلے کرتے ھیں ۔ یہ کنجوس ھے۔ یہ فضول خرچ ھے۔ یہ نالائق ھے۔ یہ بدکار ھے۔ یہ نافرمان ھے۔ یہ کافر ھے۔ یہ غدار ھے یہ غیر محب وطن ھے۔ ھمارا مائنڈ سیٹ ان فیصلوں سے اطمینان محسوس کرتا ھے۔ شائد ھم دوسروں کو جلا کر خوشی محسوس کرتے ھیں ۔ ھمارا حسد اور ھماری نفرت سکون میں آتی ھے۔ اور مزے دار سچوئیش وہ ھے جب ھم تمام چغل خورویوں کے بعد کسی پر چغل خور ھونے کا الزام لگاتے ھیں ۔
4۔ مداخلت
ھم دوسروں کی زندگی اور دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کے بے حد شوقین ھیں ۔ ھر شخص کی ٹوہ میں رھنا۔ اس کے متعلق منفی باتیں معلوم کرنا اور پھیلانا ھماری ھابی یعنی مائنڈ سیٹ ھے۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر ھم نے اپنے محلوں اور گلیوں میں جگہ جگہ حجام اور پرچون کی دکانیں کھول رکھی ھیں ۔ جہاں انتہائ سہولت سے پگڑیاں اچھالنے کا یہ کام جاری ھے۔ گھروں کے بزرگوں کو ان کی بزرگی نے مداخلت کرنے کا لائسنس مستقل طور پر عطا کر رکھا ھے۔ اور پرائویسی کس چڑیا کا نام ھے۔ ھمیں نہیں معلوم
5۔ کنٹرول کرنا
اچھا یہ جو اللہ میاں نے ھمارے بت میں جو پھونک ماری تھی۔ اس نے ھمارے مائنڈ سیٹ میں مستقل طور پر ایک چھوٹا موٹا خدا بنا رکھا ھے۔ ھم نے سمجھ لیا ھے۔ ھمارا یہ روحانی اور سماجی حق بلکہ فرض ھے۔ ھم نے دوسروں کو کنٹرول کرنا ھے۔ بہن بھائیوں کو، بیوی کو ، میاں کو ، بچوں کو اور ھر ایک کو جہاں تک ھماری کنترولنگ پاور پہنچے۔ بعض اوقات تو ھماری کنٹرول کرنے کی کمینگی یا مائنڈ سیٹ مصنوعی طور پر سچوئیش بھی پیدا کر دیتا ھے۔ جیسے گاوں کا چوکیدار کسی غریب کی بھینس کھلوا دیتا ھے۔ ریاست کوئ نظام بننے نہیں دیتی۔ اور امیر رشتے دار غریب رشتے داروں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کرکے انہیں کنٹرول کرتے ھیں ۔ اور اپنی خواہش اور حکم کے مطابق چلاتے ہیں ۔
6۔ مادی اشیاء
اچھا فیملی ، صحت ، خوشی اور ذاتی و اولاد کی کامیابی زندگی کے اصل اھداف ھیں لیکن مادی اشیاء کا حصول اور ان کا دکھاوا ھمارے مائنڈ سیٹ میں بہت اھم ھے۔ قیمتی گاڑیاں، بڑے بڑے گھر ، لش پش سامان ، مہنگا فرنیچر ، برینڈڈ شاپنگ ، اشرافیہ سے تعلقات اور دنیا کی سیر اور پارٹیاں ۔ اگر یہ سب کچھ نہ کیا تو ترقی چہ معنی وارد ۔ اگر آپ کے احباب اور رشتہ دار آپ کی امیرانہ زندگی کی چکا چوند سے پدرے نہیں ھوے، حسد یا احساس کمتری کا شکار نہیں ھوے تو کیا فائدہ اس حصولیت کا۔
7۔ ذمہ داری کی منتقلی
ذاتی، خاندانی اور اداراجاتی اور قومی سطح پر ھمارے مائنڈ سیٹ میں یہ شامل ھے۔ ھم اپنی غلطیوں، ناکامیوں اور محرومیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ۔ بلکہ ادھر ادھر ڈالتے رھتے ھیں ۔ اپنا گلٹ ڈیپازٹ کرنے کے لیے ھم نے دشمن ڈھونڈ رکھے ھیں ۔ کرپشن کا نعرہ ایجاد کر رکھا ھے۔ اور اپنا کام کرنے کی بجائے دوسروں کے چھابے میں ھاتھ مارتے رھتے ھیں ۔
8۔ اللہ کی مرضی
ھمارے مائنڈ سیٹ میں اللہ کی مرضی ایک روحانی بنیاد ھے۔ اور ھمارے ایمان کا حصہ ھے۔ ھم نے تیار ھونے میں دیر کر دی۔ بس نہیں ملی۔ اللہ کی مرضی، محنت نہیں کی۔ فیل ھو گئے ۔ اللہ کی مرضی، ڈاکٹر کی کوتاہی سے مریض مر گیا، اللہ کی مرضی ، گویا ھم نے اپنی تمام ذاتی و قومی غلطیوں کے لیے یا دشمن پال رکھے ھیں یا اللہ کو رکھ چھوڑا ھے۔
9۔ توھم پرستی
رھی سہی کسر توھم پرستی اور پیر پرستی نے پوری کر دی ھے۔ عقیدت کے نام پر اب ایسی ایسی توھم پرستی ھو رھی ھے۔ کہ اللہ کی پناہ
10۔ تقدیر اور تدبیر
یہ بھی اللہ کی مرضی کی ھی ایک شکل ھے۔ تدبیر کرتے نہیں اور تقدیر کو مستقل مورد الزام ٹھہرا رکھا ھے۔
11۔ اخلاقی قدریں
اچھا اخلاقی قدروں کو لے کر ھمارا مائنڈ سیٹ خاصہ کنفیوز ھے۔ اوپر کی امیرانہ کلاس اور نچلی غریبانہ کلاس کی کوئ اخلاقی قدریں نہیں ۔ امیرانہ کلاس کی مادی خوشحالی اور غریب کلاس کی معاشی بد حالی ان کی اخلاقی قدریں طے کرتی ھے۔ جبکہ ضمیر اور اخلاقی اصول مڈل کلاس کا مسئلہ بن کر رہ گیا ھے۔ یہ خوش آئیند بات ھے۔ مڈل کلاس آھستہ آھستہ ختم ھو رھی ھے۔ چناچہ اخلاقیات اور ضمیر کا رولا بھی جلد ختم ھو جاے گا۔ اور ھمارا مائنڈ سیٹ کم از کم اس بوجھ سے آزاد ھو جاے گا۔
12۔ ترقی کا تصور
ھمارے مائنڈ سیٹ میں ترقی کا ایک ھی تصور ھے۔ ھم نے ترقی کرکے حاکم کلاس کا حصہ بننا ھے اور محکوم کلاس سے باھر نکلنا ھے۔
مائنڈ سیٹ ایک انتہائی طاقتور خصوصیت ھے۔ اھل یورپ نے چرچ اور کنگ کے اثر سے نکلنے کے لیے طویل جدوجہد کی۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر تعلیم اور جمہوریت کے ذریعے بنیادی تبدیلیاں لے کر آے اور آج یہاں کے لوگ ایک رفاعی و معاشی ریاست کے فائدے اٹھا رھے ھیں ۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply