دقیانوسی قوانین پر نظرثانی کی اشد ضرورت۔۔۔۔فضل رحیم آفریدی

وزیراعظم عمران خان صاحب کی  مختصر سی تقریر خلاف توقع تو تھی ہی لیکن اس تقریر میں سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ   انہوں نے صرف اور صرف تحریک لبیک پاکستان کے قائدین کی ایک منفی تقریر کا جواب دیا۔ انہوں نے   بغیر تحقیق کئے اس فیصلے کے خلاف لوگوں کو ایک چھوٹا سا طبقہ ، ٹولہ اور گروہ قرار دیا جو کہ حقائق کے منافی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ان کی اپنی پارٹی کے زیادہ تر قائدین اور لاکھوں کارکنان اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ میرے خیال میں اگر دیکھا جائے تو مجموعی طور پر یہ ایک چھوٹا سا ٹولہ حکومت کی رٹ چیلنج کئے بغیر بھی اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے کیونکہ یہاں بات دنیاوی مفادات کے برعکس عشق رسول کی ہے۔ عمران خان صاحب اور حکومت پاکستان اگر چاہتی تو ان دھرنوں کے خاتمے اور اس موجودہ آگ کو بجھانے کیلئے اپنے ایک ادنی سے قائد کے ذریعے سپریم کورٹ میں اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کروا کر حکومت کے خلاف عوام کے منفی تاثرات کو زائل کرتی۔

اس کیس کا دوسرا پہلو ملاحظہ کیجئے کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے پھانسی کے  سزا یافتہ مجرم کو سپریم کورٹ سے آٹھ نو سال بعد باعزت بری کیا جاتا ہے ۔ ایسے واقعات اس سے پہلے بھی رونما ہوئے ہیں لیکن اگر اس معاملے پر غور کیا جائے تو ہمیں ہمارے قانون میں موجود ایسی بہت سی خامیاں اور پیچیدگیاں نظر آئیں گی جس کو از سر نو مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یا تو ان قانون دانوں اور جج صاحبان کی تعلیمی پالیسی کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالنا ہوگا جس میں غلطی کا شائبہ تک نہ ہو کیونکہ طب (Medical) اور قانون (Law) میں چھوٹی سی غلطی بہت ہی بڑے نقصان کو دعوت دیتی ہے۔

مذکورہ کیس اور اس نوعیت کے ایسے بہت سے کیسز ہوتے چلے آرہے ہیں جس میں سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ یکسر بدل دیا کرتی ہے۔ ہمیں فریقین کےخلاف تو قانون کے فیصلے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن ایسے فیصلوں کے تناظر میں قانون دان اور جج صاحبان کے خلاف کوئی بھی ایسی قانونی چارہ جوئی عمل میں نہیں لائی جاتی جو یکساں طور پر سائلین ، قانون دانوں اور جج صاحبان کو قانون کے تابع کریں۔ ابھی توہین رسالت کے اسی فیصلے کی  مثال لیجئےکہ اگر آسیہ بی بی ملزمہ تھی تو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے مجرمہ کیوں بنایا؟ کیا سپریم کورٹ کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز سے اس بات کا استفسار ضروری نہیں تھا کہ آپ نے ملزمہ کو کس بنیاد پر سزا دی؟ اور اگر وہ مجرم قرار پائی تو سپریم کورٹ نے اسے کلین چٹ کن بنیادوں پر دی؟ کیا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے دلائل دے کر اسے رد کردیں اور اگر تھوڑی بہت گنجائش ہے تو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کیوں اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں نہیں دیتے ؟ کیونکہ معاملہ نہ صرف ان کے کیرئر کا ہے بلکہ ایک عظیم ہستی نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا ہے۔ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ہم سے اس پرانے برٹش قانون کے از سر نو جائزے اور ان پر من وعن عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ایسے فیصلوں میں سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (Supreme Judicial Council ) میں ریفرنس دائر کیا جا سکتا   ہے جس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے سے بالکل  مختلف ہوں۔ سپریم جوڈیشل کونسل قانونی تقاضے پورا کرتے ہوئے جج کے خلاف ریفرنس کی سماعت کرتی ہے اور تمام کیس کا جائزہ لیکر فیصلہ سناتی ہے۔ مگر افسوس کہ اب تک قانون کے رکھوالے اپنے خلاف اس قانون پر عمل درآمد کرنے سے قاصر رہے۔

julia rana solicitors london

اب ضرورت اس امر کی ہےکہ بحیثیت مسلمان تمام پالیسیوں اور قوانین کو جدید تقاضوں اور قرآنی احکامات کے عین مطابق مرتب کیا جائے اور ہر ادارے میں بیوروکریٹس کو مطلوبہ پیشہ ورانہ تعلیم اور عملی تجربےکے ساتھ ساتھ جدید خطوط پر استوار ٹریننگز سے گزار کر ان کی ذہنی، اخلاقی اور مذہبی سوچ کی نشونما کی جائے تا کہ مستقبل میں ایسے مسائل سے بچا جاسکے جس کی اساس ہی دقیانوسی (Outdated) قوانین اور پالیسیوں کا اتباع ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply