طاہر یاسین طاہر
ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں یہ معاشرہ اپنے مجموعی مزاج میں انتہا پسندانہ معاشرہ ہے۔مذہبی انتہا پسندی،لبرل انتہا پسندی،سیاسی انتہا پسندی،اپنی بات کو ہرحال میں درست ثابت کرنے کے لیے آزمائے جانے والے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے۔اسی طرح ہم معاشرتی سطح پہ جنسی انتہا پسندی کا بھی شکار ہیں۔القصہ ہمارا معاشرہ انتشار اور غیر متوازن معاشرتی رویوں کا افسوس ناک مظہر ہے۔ایک قومی ٹی وی چینل کی اردو ویب سائٹ پہ شائع ہونے والی خبر کے مطابق ’’سیالکوٹ میں تھانہ کینٹ کے علاقے بھڑتھ میں ملزمان نے ایک بیوٹیشن کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اپنا جرم چھپانے کے لیے تیز دھار آلے سے اس کا گلا کاٹ دیا، خاتون کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق متاثرہ خاتون کی بہن کا کہنا ہے کہ 3 افراد ان کے گھر آئے تھے اور کہا کہ ان کے گھر شادی کی تین روزہ تقریبات ہیں، جہاں دولہن اور گھر کی دیگر خواتین کا میک اپ کرنا ہے۔
درخواست گزارکا کہنا تھا کہ مبینہ ملزمان نے اسکی بہن کو میک اپ کے لیے بک کیا اور وہ اپنی بہن کو خود شادی والے گھر چھوڑ کر آئی، جہاں پر مبینہ ملزمان کی دو بہنوں اور ایک بھائی کی شادی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ملزم اس کی بہن کو گھر واپس چھوڑنے کے لیے آرہے تھے تاہم انھوں نے اسے اکیلا پاکر ریپ کا نشانہ بنایا اور جرم چھپانے کے لیے اس کی بہن کو قتل کرنے کی نیت سے تیز دھار آلے سے اس کا گلا کاٹ دیا۔
درخواست گزار نے پولیس کو بتایا کہ ریپ کے بعد ملزمان نے اس کی بہن کو مردہ سمجھ کر سنسان سڑک پر پھینک دیا، جو معجزانہ طور پر بچ گئی اور راہگیروں نے اسے تشویشناک حالت میں گورنمنٹ علامہ اقبال میموریل ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا۔ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فیض احمد کے مطابق متاثرہ خاتون کا میڈیکل کرنے کے بعد سیمپل لاہور لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں، اور رپورٹس کا انتظار کیا جارہا ہے۔پولیس نے متاثرہ خاتون کی بہن کی مدعیت میں 3 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے لیکن مدعیہ نے الزام لگایا کہ ملزمان با اثر ہیں جنہیں پولیس گرفتار نہیں کررہی۔ادھر میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او سیالکوٹ ڈاکٹر عابد کو ملزمان کی فوری گرفتاری کے لیے احکامات جاری کردیے۔‘‘
یاد رہے گذشتہ برس لاہور کے میو ہسپتال میں کام کرنے والی ایک نرس کو مبینہ ریپ کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔اسی طرح رواں برس مارچ میں آزاد جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں 18 سالہ لڑکی کو اغواء اور گینگ ریپ کے بعد زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔جبکہ صوبہ پنجاب کے علاقہ لیہ میں دو سال قبل ایک ہولناک واقعہ پیش آیا تھا کہ جہاں ایک نوجوان لڑکی کا ریپ کرنے کے بعد اس کا قتل کر کے اس کی لاش درخت کے ساتھ لٹکا دی گئی تھی۔اگرچہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور ریپ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کرلیے ہیں۔ یہ دونوں بل پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے تھے۔ بل کے تحت ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی جاسکے گی۔ریپ کے مقدمات کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ نوے روز میں ہوگا۔ یہ دونوں بل گذشتہ ڈھائی سال سے التوا کا شکار تھے اور حکمراں اتحاد میں شامل کچھ جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے یہ دونوں بل تاخیر کا شکار ہوئے۔اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریپ کے واقعات اگر تھانے کی حدود میں ہوں گے تو اس پر مجرم کو دوہری سزا دی جائے گی۔
گذشتہ ماہ ہی پارلیمان سے منظور والے والے بل کے تحت کسی کو سز ا،ابھی تک تو نہ ہوئی۔ہم سمجھتے ہیں کہ مقدمے کی مدعی نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے میڈیا ان پہ نظر رکھے اور با اثر ملزمان کو کسی بھی طور بچ نکلنے کا جواز یا موقع نہ دے۔اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او سیالکوٹ کو ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دیا ہے یہ مگر دکھ کی بات ہے کہ ورکنگ وویمن کو ہوس پرست اور با اثر ملزمان اپنی ہوس گیری کا نشانہ بناتے رہیں اور ریاست اس پہ خاموش رہے۔مذکورہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے مگر ،ماضی اس امر کا شاید ہے کہ متاثرہ خاتون کو یا اس کے خاندان کو طفل تسلیاں اور امداد دے کر ایسی فضا بنا دی جاتی ہے کہ غریب خاندان کو ملزمان کے ساتھ صلح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال کسی بھی معاشرے کے زوال کی نشانی ہوتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ریاست ملزمان کے ساتھ سختی سے نمٹے گی اور عدل کے تقاضے یوں پورے کرے گی کہ ریاست کا ہر شہری اپنی جان، مال اور آبرو کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں