ولادتِ رسولﷺ اور اسوہء حسنہ۔۔۔۔علینہ ظفر

سراپاء عشقِ حق بن کر حسینوں کے حسین آئے

مبارک ہر جہاں کو رحمت اللعالمین ﷺآئے

12 ربیع الاول کی مبارک صبح کو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بطن سے ایک ایسی مقدس اور عظیم ہستی نے جنم لیا جس کے دم سے یہ کائنات وجود میں آئی۔ وہ اعلی و معتبر ہستی تمام جہانوں کے آقا ہمارے پیارے  نبیِ کریم حضرت محمد ﷺ ہیں۔ جس مہینے میں آپؐ کی ولادتِ مبارک ہوئی اُس کا نام ہی کتنا خوبصورت ہے، “ربیع الاول”۔ربیع عربی میں بہار کو کہتے ہیں اور بہار کے موسم میں پھول کھِلتے ہیں جبکہ اول کے معنی ہیں پہلا۔ ربیع الاول سے مراد ہےموسمِ  بہار میں کھلنے والے پہلےپھول۔جب بہار کے پہلے پھول کھِلتے ہیں تو ہرسوُ خوشبو بکھرتی ہےاور چمن خوبصورت نظارے پیش کرتے ہیں۔  ماہِ  ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ کی آمد  ہوئی تو جگ پُر نور روشنی میں  یوں نہا گیاجیسے اندھیری رات چاند تاروں کی بدولت روشن ہو جائے، فضا یوں معطر ہو گئی گویا خزاں کی رُت کے فوراً بعد ہی موسمِ بہار کے کھِلنے والے پہلے پھول اپنے حسین نظاروں اور نفیس مہک کا  آنکھوں اور دل ودماغ پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔آپؐ کی تشریف آوری سے ہر طرف رحمت ہی رحمت برسنے لگی ۔ آپؐ محض ایک مخصوص طبقے یا قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کی فلاح و بھلائی کے لیے تشریف لائے، جیسا اللہ تعالی نے فرمایا کہ رسول اللہﷺتمام جہانوں کے لیے  رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔اللہ تعالی کا احسانِ عظیم ہے اور یہ ہمارے لیے نعمت بھی ہے کہ اس نےرسولِ اکرمﷺ کو ہم سب کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔ بے شک آپؐ  اللہ کے احکامات کا بہترین عملی نمونہ ہیں جن کے ذریعے اللہ نے ہمیں عبادات اور زندگی گزارنے کے اصول بتائے اور سکھائے۔

رسول اللہﷺ اعلی و بلند اخلاق والے  اور نہایت خوشگفتار تھے۔ اللہ نے رسول اللہﷺ کو گفتگو کے لیے شیریں سُخن اور نرم خُو انداز عطا فرمایا۔ آپؐ کی گفتگو طنز ، نکتہ چینی ، بے  جا تنقید اور فضول گوئی سے مبرا تھی۔آپؐ نے تمام مخلوق سے محبت اور حُسنِ اخلاق کا درس دیا۔دوسروں پر جبر، ظلم و زیادتی اور کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع فرمایا۔ آپؐ نےحسد اور دوسروں کے لیے بُرا سوچنے  سے بھی منع فرمایا اور فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔  آپؐ نے جانور اور پرندوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا۔ رسول اللہﷺ  نے رہن سہن ، خوراک اور لباس کے معاملے میں سادگی اپنائی۔ بڑے بڑے اور اونچے محلات میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح نہیں دی بلکہ عرب کے رہنے والے عام عادمی کا طرزِ زندگی اپنایا۔آپؐ کے گھر میں صرف ضرورت کا سامان موجود تھا، جھوٹی شان و شوکت بڑھانے کی غرض سے سجاوٹ کے لیے کوئی چیز یا  کسی قسم کی اضافی اشیاء موجود نہیں تھیں۔دسترخوان تین وقت طرح طرح کے پکوان سے نہیں سجتا تھا اور نہ ہی کبھی پیٹ بھر کر کھانے کو ترجیح دی۔آپؐ نے روز روز نت نئے لباس بھی کبھی زیب تن نہیں کیے بس صاف ستھرا لباس اور پاکیزگی کو مدِ نظر رکھا۔حضورِ اکرمﷺ نے مال و دولت، جاہ و منصب، حسن و جمال، علم و فضل کے بارے میں دوسروں کے مقابلے میں خود پر فخرو غرور سے ممانعت فرمائی اور اللہ کی عطا کی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور ان سے دوسروں کو اُن پر رعب جمائے اور احسان جتائے بغیر فائدہ پہنچانے کی تلقین فرمائی۔ رسول اللہﷺ کوتمام جہانوں کی سرداری سونپی گئی لیکن اگر آپؐ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو دنیا میں سب سے زیادہ افضل ہونے کے باوجود بھی کہیں کِبر یا تکبر کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ آپؐ نے عاجزی اور انکساری کا سبق دیا۔

julia rana solicitors

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ جو چیز تمہیں دیں اُسے لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔ رسول اللہﷺ اللہ اور لوگوں کے درمیان پُل کی مانندہیں۔ کسی جگہ تک رسائی کے لیے ایک پُل بہت اہم حیثیت رکھتا ہے جہاں تک جانے کے لیے اُس کا استعمال کیا جاتا ہے اور ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہم سب کا شمار خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے کہ ہم نبیِ کریمﷺ کے اُمتی اور اُن ؐکے ماننے والے ہیں لہٰذا اگر  اپنی زندگی میں کسی بھی موڑ پر  اُنؐ کی تعلیمات کو فراموش نہ کیا جائے تو یہ زندگی تو خوشگوار ہو جائے گی بلکہ آخرت بھی لازمی سنور جائے گی۔ اللہ تعالی ہمیں احکامِ ربِ باری تعالی اور سُنتِ رسولﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply