ہر مسلمان عاشق رسول ہے مگر سب کا طریقہءِ اظہارِ عشق مختلف ہے. یوں تو طریقہء اظہار ایک ذاتی و انفرادی فعل ہے جس پر اعتراض مناسب نہیں اور اعتراض کرنے سے جذبے پر ضرب بھی پڑتی ہے نتیجتاً بد گمانیاں اور نفرتیں جنم لیتی ہیں.مگر بھائیوں آئیے ایک مرتبہ تمام تر فرقہ واریت کو ایک جانب چھوڑ کر، کسی بھی طریقے کی تردید و تنقیص سے صرفِ نظر کرکے، محض ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے چند باتوں پر غور کرتے ہیں اور طریقہءِ حق کی طرف رسائی کی کوشش کرتے ہیں.
نبیِ آخر زمان، سرکار دو جہاں، رحمة اللعالمین صلى الله عليه وسلم کی بعثت روئے زمین پر موجود تمام تر خلقت کے لئے ایک ایسی نعمت ہے جس پر بندہ خدا جتنا بھی شکر کرلے حق کی ادائیگی سے پھر بھی قاصر ہی رہے گا..
آپکی بعثت کا مقصد کیا تھا.؟ کفر اور کفری رسومات کی گمراہیوں اور ظلمتوں کا ابطال کرکے لوگوں کو حق کا راستہ دکھانا، نجات کا راستہ دکھانا، خالقِ حقیقی کی طرف بلانا اور اس کے ساتھ لوگوں کا تعلق جوڑنا.. یعنی تمام تر عمل خالصةً الله کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے نا کہ کسی دنیوی غرض کے لئے.. ساری زندگی الله کے احکامات کی تبلیغ و اشاعت میں گزاری، باوجود الله کے محبوب ہونے کے اور معصوم عن الخطأ ہونے کے الله سے ڈرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے فریضہء رسالت ادا کرتے رہے..
خلاصہ نبی کا ہر کام الله کے حکم کے مطابق اور الله کی رضا کیلئے ہوتا تھا.
طریقہءِ_اظہارِ_عشق الله سے محبت کا طریقہ کیا ہے.؟
اب یہ یا تو خود الله کے کلام سے سیکھا جائے گا..تو الله نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا …أطيعوا الله
یا پھر الله کے سب سے مقرب اور محبوب ترین ہستی نبی کریم صلی الله عليه وسلم سے سیکھا جائے گا اور نبی کے افعال اور بہت سے اقوال یعنی احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصل طریقہ الله سے اظہارِ عشق کا الله کے حکم کی اطاعت ہے اور الله کی رضا اور خوشنودی کے لئے کام کرنا ہے..
اب میرے محترم مسلمان بھائیوں آجکل جو ایک معرکہ عشقِ رسول اور طریقہ عشقِ رسول کو لیکر پرپا ہے..اب ایک سچا اور اچھا مسلمان اس بات پر تو پکا یقین رکھتا ہے اور رکھنا چاہیے کہ ہر مسلمان عاشقِ رسول ہے جو عاشق رسول نہیں یا تو اسکا ایمان کامل نہیں یا وہ مسلمان ہی نہیں.جب یہ مان لیا کہ ہر مسلمان عاشق رسول ہے ہے تو سوال ہوا کہ اظہارِ محبت کا کیا طریقہ ہو.؟
تو اب یہ طریقہ یا تو قرآن سے سیکھا جائے گا یا خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سیکھا جائے گا یا پھر ان سے جو الله کے نبی کے سب سے زیادہ مقرب تھے، اتنے مقرب کہ دنیا میں تو قربت تھی ہی، ساتھ ہی ساتھ وفات کے بعد بھی آپکے پہلو میں جگہ پائی اور آخرت میں بھی سب سے قریب ہونگے.حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه۔۔۔
١. تو قرآن میں آیا ۔۔أطيعوا الرسول اور اطاعتِ رسول کو نا صرف یہ کہ عشقِ رسول پر منحصر رکھا بلکہ اطاعتِ رسول کو اطاعت الہی اور عشقِ الہی کا ذریعہ بھی بتایا گیا.
٢. خود نبی پاک نے احکاماتِ الہیہ کی اطاعت کو، جو نبی کریم صلی الله عليه وسلم لیکر آئے اور لوگوں کو بتائے انکی اتباع کو ہی اظہارِ محبت کا طریقہ بتایا. ساتھ ہی ساتھ (پیر) کے دن جو آپکی پیدائش کا دن تھا اس دن روزہ رکھ کر ادائیگی شکر کا طریقہ بھی بتادیا اور اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ طریقہ بھی ایسا ہو جو الله کے دین کی تعلیمات کے مطابق ہو..
3. نبی پاک کے بعد آپکے سب سے مقرب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی أطيعوا_الله_وأطيعوا_الرسول کو لازم پکڑا اور آپکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو ہی اظہارِ محبت و عقیدت کا طریقہ مانا بھی اور اپنے اعمال سے ظاہر بھی کرکے دکھایا.
ہمارا عمل ہمارا طریقہءِ اظہارِ عشق واضح ہے نشاندہی ضروری نہیں کیونکہ مقصد نہ دل آزاری ہے نہ کسی کی تردید. لیکن چند سوال ہیں خود سے، جن کا جواب اپنے لئے، اپنی اصلاح کے لئے، اپنی آئندہ نسلوں کی اصلاح کے لئے، ضروری سمجھتا ہوں ۔۔۔
١. کیا ہمارے اعمال الله کی رضا اور خوشنودی میں گزر رہے ہیں؟
٢. کیا ہمارا ہر عمل أطيعوا_الله_وأطيعوا_الرسول کے تقاضوں کے مطابق ہے.؟
٣. کیا ہمارا عمل نبی پاک کی عملی و قولی دونوں تعلیمات کے عین مطابق ہے.؟
٤. کیا ہمارے اعمال نبی کے صحابہ کے مطابق ہیں.؟
٥. کیا ہم نے اپنے اپنے طور پر جو طریقہ اظہارِ محبت کا اختیار کیا ہواہے کیا یہ کافی ہے..؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے.؟ اور کیا یہ اعمال، الله کی اور نبی کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ بننے کے قابل ہیں.؟
٦. کیا ہم اپنے آپ کو دھوکہ تو نہیں دے رہے.؟ کیا اس دھوکے میں اصل راستے سے منحرف تو نہیں ہو گئے.؟
سوچئے اگر جوابات ہاں میں ہیں تو آپ عاشق بھی ہیں اور عشق کے تقاضے بھی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں